Tafseer-e-Majidi - Hud : 15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو کوئی دنیا ہی کی زندگی اور اس کی رونق کو مدنظر رکھتا ہے تو ہم ان لوگوں کو ان کے اعمال (کی جزا) اسی (دنیا) میں پوری طرح دے دیتے ہیں اور ان کے لئے اس میں ذرا کمی نہیں ہوتی،19۔
19۔ آیت میں ایک بڑی تلخ مگر گہری حقیقت کا اعلان ہے جو لوگ یا قومیں سرتاسر دنیا ہی کو اسی کو ” ترقیوں “ کو اپنا منتہائے نظر اور نصب العین بنائے ہوئے ہیں اور اپنی ساری سرگرمیوں کا مرکز اسی کو قرار دیئے ہوئے ہیں وہ گھبرائیں نہیں، انہیں مایوسی نہ ہوگی، انہیں اپنی ساری جدوجہد کا صلہ یہیں اور ابھی ملا جاتا ہے۔ وہ دولت چاہتے ہیں ان میں کا ایک ایک فرد قارون وقت ہو کر رہے گا۔ انہیں حکومت کی ہوس ہے دنیا کے سارے ملک انہی کے درمیان تقسیم ہو کر رہیں گے، انہیں عزت وناموری فتح مندی کی چاٹ ہے تو اچھا وہ دل کھول کر اپنے دل کے ارمان نکال کر رہیں۔ (آیت) ” من کان یرید الحیوۃ الدنیا وزینتھا “۔ حیات وزینت حیات سے الفت تو ایک امر طبعی ہے اور ہر انسان بڑے سے بڑا متقی انسان بھی کسی درجہ میں اس کا آرزو مند ضرور رہتا ہے البتہ حیات دنیوی اور زینت دنیوی کو آخرت کی طرف سے آنکھیں بند کرکے اپنا مقصود بنالینا اور اپنے وقت وقوت کو اسی میں خرچ کئے چلے جانا یہ ایک بالکل دوسری چیز ہے اور یہاں ذکر اسی کا ہے جیسا کہ لفظ یرید سے ظاہر ہے۔ اے تکون ارادتہ مقصورۃ علی حب الدنیا وزینتھا ولم یکن طالبا لسعادات الاخرۃ کان حکمہ کذا وکذا (کبیر) فقہاء نے یہاں سے یہ مسئلہ بھی نکالا ہے کہ جو اعمال محض دنیوی نفع اور حصول معاوضہ کے خیال سے انجام دیئے جاتے ہیں گو وہ ذکر وتلاوت ہی پر شامل ہوں، موجب ثواب وحسن آخرت نہ ہوں گے۔ ھذا یدل علی ان ما سبیلہ ان لا یفعل الا علی وجہ القربۃ لایجوز اخذ الاجرۃ علیہ لان الاجرۃ من حظوظ الدنیا فمتی اخذ علیہ الاجرۃ فقد خرج من ان یکون قربۃ بمقتضے الکتاب والسنۃ (جصاص)
Top