Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 16
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا
وَاِذَآ : اور جب اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اَنْ نُّهْلِكَ : کہ ہم ہلاک کریں قَرْيَةً : کوئی بستی اَمَرْنَا : ہم نے حکم بھیجا مُتْرَفِيْهَا : اس کے خوشحال لوگ فَفَسَقُوْا : تو انہوں نے نافرمانی کی فِيْهَا : اس میں فَحَقَّ : پھر پوری ہوگئی عَلَيْهَا : ان پر الْقَوْلُ : بات فَدَمَّرْنٰهَا : پھر ہم نے انہیں ہلاک کیا تَدْمِيْرًا : پوری طرح ہلاک
اور جب ہم ارادہ کرلیتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں گے تو اس (بستی) کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں پھر وہ لوگ وہاں شرارت مچاتے ہیں تو ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے پھر اس (بستی) کو تباہ و غارت کر ڈالتے ہیں،27۔
27۔ یہاں اسی عام ضابطہ کا بیان ہے کہ جب کسی قوم کی شدت کفر و طغیان کی بنا پر حکمت الہی کو اس کا فنا کردینا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے تو پہلے کسی رسول کے ذریعہ سے اسے ایمان و اطاعت احکام کا حکم پہنچایا جاتا ہے اور جب وہ برابر عدول حکمی کرتے رہتے ہیں تو ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے اور بستی تہس نہس کر ڈالی جاتی ہے۔ (آیت) ” واذا اردنا “۔ یہ ارادۂ الہی ہمیشہ مصالح تکوینی اور آئین حکمت کے ماتحت ہوتا ہے رضائے الہی ایک بالکل دوسری چیز ہے۔ (آیت) ” ان نھلک قریۃ “۔ یہ کسی بستی کی ہلاکت بطریق عذاب اس کی مسلسل نافرمانیوں کا نتیجہ ہوتی ہے خود بخود نہیں واقع ہوجاتی۔ (آیت) ” امرنا مترفیھا “۔ اطاعت احکام الہی کا یہ حکم رسول کے ذریعہ سے ملتا تو امت کے عوام و خواص سب ہی کو ہے لیکن خواص کی حیثیت لیڈر، پیشوا یا مقتدا کی ہوتی ہے۔ اس لئے ان کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا، عوام تو بس انہی کے پیرو ہوجاتے ہیں۔ (آیت) ” ففسقوا فیھا فحق علیھا القول “۔ یہ الفاظ اس باب میں صریح ہیں کہ گرفت دفعۃ اور بلااطلاع نہیں ہوجاتی پوری طرح موقع دینے اور ہر طرح کے اتمام حجت کے بعد ہی ہوتی ہے۔
Top