Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور آپ سے (لوگ) ذوالقرنین کے باب میں سوال کرتے ہیں،128۔ آپ کہہ دیجیے کہ ان کا ذکر میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں،129۔
128۔ عجب نہیں کہ ان اسرار کا بتلانا اسی درخواست کا پورا کرنا بھی ہو جو موسیٰ (علیہ السلام) نے کی تھی، (آیت) ” تعلمن مماعلمت “ گونمونہ ہی کے طور پر سہی۔ اور زیادہ ساتھ رہنے میں وہ غالبا مناسب موقع پر خود ہی بتلاتے اور ہر واقعہ پر بتلاتے تو یہ علم زیادہ حاصل ہوتا۔ اور گویہ علم موسوی کے برابر مفید عام نہ ہو کیونکہ قابل اتباع نہیں۔ تاہم اس معنی کو مفید خاص کر ضرور ہے کہ بعض حکمتیں مفصلا منکشف ہوتی ہیں۔ گواجمالی عقیدہ کہ ہر واقعہ مشتمل حکمتوں پر ہوتا ہے قرب کے لئے کافی ہے۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں یہ نہ کہا کہ تم خلاف شرع کرتے ہو۔ وجہ یہ کہ بعد غصہ فرو ہوجانے کے اجمالا سمجھ گئے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس بھیجا ہے تو ان کا فعل موافق ہوگا “ (تھانوی (رح) سارے قصہ سے ظاہر ہے کہ پیغمبر کے لئے شرط علوم متعلقہ نبوت سے اطلاع ہے نہ کہ تمام علوم سے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس علم سے جس کے لئے اتنابڑا سفر کیا تھا اور جس کے سیکھنے کے لئے اس شوق سے آئے تھے دست برداری گوارا کرلی مگر یہ گوارا نہ کیا کہ خلاف منصب نبوت ایسے منکر افعال پر (ان کے منشائے باطن کچھ بھی سہی) سکوت گوارا کرلیں۔ اسی لئے محققین کا بالاتفاق فیصلہ ہے کہ کوئی شغل، کوئی کسب اپنے آثار روحانی ولطائف نورانی کے لحاظ سے کیسا ہی مزکی نفسی ومجلی قلب ہو اگر احکام شریعت ظاہری کے خلاف ہوگا۔ ہرگز جائز و حلال نہیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ ایسے مغیبات پر مطلع ہوجانا یا ان کا منکشف ہوجانا مقاصد میں سے نہیں چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) باوجود اس کے کہ قطعی نبی اور اولوالعزم اور صاحب شریعت مستقلہ ہونے کے خضر (علیہ السلام) سے اکمل ہیں۔ پھر بھی ان واقعات سے متعجب رہے۔ ،129۔ یہ سوال کرنے والے قریش تھے بہ مشورہ یہود۔ بعض روایتوں میں صرف مشرکین کا ذکر ہے اور بعض میں صرف اہل کتاب کا۔ لیکن قول مشہور ومحقق یہی ہے۔ السائلون فی المشھور قریش بتلقین الیھود (روح) (آیت) ” ذوالقرنین “۔ طرز سوال سے یہ خود ہی نکل آیا کہ ذوالقرنین کے لفظی معنی ہوئے ” دو سینگوں والا “ اور ایک معنی قوت کے بھی لئے گئے ہیں۔ قیل القرن القوۃ (ھنا یہ لسان) قرآنی تصریحات سے اتنا تو بہر حال معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی دیندار اور بڑے فاتح کشور کشا تھے مگر اس سے زیادہ تعیین قرآن میں نہیں۔ آگے شارحین ومفسرین کے قیاسات ہیں غالب خیال یہ ہے کہ مراد مشہور تاریخی فاتح سکندر یونانی (متوفی 323 ؁ ق۔ م) سے ہے۔ والمشہور انہ الا سکندر (بحر) یعنی اسکندر الرومی (بیضاوی) الاسکندر الذی ملک الدنیا (مدارک) اسمہ سکندر (جلالین) وجب القطع بان المراد بذی القرنین الاسکندر بن فیلقوس الیونانی (کبیر) اور اہل لغت نے یہ تشریح بطور ایک مسلمہ کے نقل کردی ہے۔ وذوالقرنین المذکور فی التنزیل ھو اسکندر الرومی (قاموس۔ تاج) وذوالقرنین الموصوف فی التنزیل لقب لاسکندر الرومی (لسان) اس قول کے تسلیم کرنے میں دقت یہ پڑتی ہے کہ سکندر کے موحد و مومن ہونے کا کوئی ثبوت تاریخ میں موجود نہیں۔ یہود، عبادت یہود اور معبد یہود کے ساتھ اس کے ہمدردانہ برتاؤ سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اسے دین توحید سے کوئی عناد وتنفرنہ تھا جیسا کہ عموما مشرک بادشاہوں کو رہا کیا ہے۔ دوسرے اقوال جو ایران کے بادشاہ عظیم سایرس یا فورس یا کخیسر و (متوفی 539 ؁ ق، م) وغیرہ سے متلق ہیں۔ ان کے ماننے میں تاریخی دقتیں کچھ کم حائل نہیں۔ قرن یا سینگ توریت کی اصطلاح میں شوکت واقتدار کے معنی میں آیا ہے۔ اور روایات یہود میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب کوہ طور سے توریت لیکر واپس ہوئے ہیں تو آپ کے سر پر بھی یہی دو سینگ نمودار تھے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ ذو القرنین کی وجہ تسمیہ سے متعلق متعدد قول اور روایتیں منقول ہیں۔ ایک مشہور ومرفوع روایت یہ ہے کہ مشرق سے مغرب تک سیر کی تھی اس لئے ذوالقرنین مشہور ہوئے۔ انہ طاف قرنی الدنیا اے شرقھا وغربھا وروی ذلک مرفوعا (روح) سمی بذلک لانہ ملک الشرق والغرب (ہنایہ)
Top