Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 52
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ سے وَقَوْمِهٖ : اور اپنی قوم مَا هٰذِهِ : کیا ہیں یہ التَّمَاثِيْلُ : مورتیاں الَّتِيْٓ : جو کہ اَنْتُمْ : تم لَهَا : ان کے لیے عٰكِفُوْنَ : جمے بیٹھے ہو
(وہ وقت یاد کرو) جب انہوں نے باپ سے اور اپنی قوم والوں سے کہا یہ کیا (واہیات، خرافات) مورتیں ہیں جن پر تم جمے بیٹھتے ہو،70۔
70۔ ملک بابل (موجودہ عراق) کی قدیم قوم شرک وبت پرستی میں مبتلا تھی، مظاہر پرستی، کواکب پرستی وغیرہ کے علاوہ مورتی پوجا کا بھی رواج ان میں پھیلا ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسی قوم کے درمیان پیدا ہوئے۔ آپ (علیہ السلام) کے والد تارح (عربی تلفظ میں آزر) ایک بڑے صناع بت تراش وبت فروش تھے۔ ملاحظہ ہوں انگریزی تفسیر القرآن کے حاشیے۔ شیخ اسمعیل شہید (رح) نے اس آیت سے صوفیہ کے تصور شیخ کے ناجائز ہونے پر استدلال فرمایا ہے۔ مرشد تھانوی (رح) کی تحقیق ہے جو تصور شیخ غالی صوفیوں میں چلا ہوا ہے وہ تو بیشک ممنوع ہے لیکن اگر تصور شیخ ایسا ہو کہ نہ وہ بالا ستقلال مقصود ہو اور نہ اس پر عکوف ہو، بلکہ محض غلبہ محبت سے مثل دوسرے محبوبات کے وہ بھی ذہن کے سامنے آجائے اور جب وہ ذہن سے غائب ہونے لگے تو اہتمام اس کے باقی رکھنے کا بھی نہ کیا جائے تو ایسے تصور شیخ میں کوئی مضائقہ نہیں۔
Top