Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ : اذن دیا گیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو يُقٰتَلُوْنَ : جن سے لڑتے ہیں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ ظُلِمُوْا : ان پر ظلم کیا گیا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي نَصْرِهِمْ : ان کی مدد پر لَقَدِيْرُ : ضرور قدرت رکھتا ہے
(اب لڑنے کی) اجازت دی جاتی ہے انہیں جن سے لڑائی کی جاتی ہے،70۔ اس لئے کہ ان پر بہت) ظلم ہوچکا،71۔ اور بیشک اللہ ان کی نصرت پر (ہر طرح) قادر ہے،72۔
70۔ (خواہ مخواہ اور چھیڑ چھیڑ کر کافروں کی طرف سے) یعنی مسلمانوں کو اب تک مقابلہ اور لڑائی کی اجازت نہ تھی، ان پر ہر طرح کے ظلم وستم ہوتے رہے۔ اور وہ یعنی خدائی فوج والے، خدائی ڈسپلن کے ماتحت ان مظالم اور چیرہ دستیوں کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ اب پہلی بار انہیں بھی جواب دینے کی اجازت مل رہی ہے۔ یہ آیت احکام قتال و جہاد میں اولین آیت ہے۔ اور مکی اسلام کے آخری زمانہ میں ہجرت نبوی سے کچھ ہی قبل نازل ہوئی۔ 71۔ (اور یہی مظلومیت چاہے بالفعل ہو یا بالقوی، حالی ہو یا امکانی، علت ہے مشروعیت جہاد کی) (آیت) ” بانھم ظلموا “۔ کی علت ہونے سے کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ جو کفار ظالم نہ ہوں مگر اسلام کے زیر فرمان بھی نہ ہوں وہ محل قتال نہیں ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اس علت میں انحصار کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ یکون الدین للہ کو غایت قرار دینے سے دوسری علت یہ بھی معلوم ہوئی “۔ (تھانوی (رح) ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ 72۔ (چنانچہ عنقریب وہ انہیں باوجود ان کی ظاہری بےسامانی کے غالب کرکے رہے گا)
Top