Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 196
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِيْ : میں زُبُرِ : صحیفے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (پیغمبر)
اور ہے اس (کا ذکر) پہلی امتوں کی کتابوں میں ہے،102۔
102۔ (آیت) ” انہ “ میں مضاف مقدر ہے۔ عربی محاورہ میں عام طور سے آتا ہے۔ فلان فی دفتر الامیر۔ اور فلاں سے مراد فلاں کے نام یا ذکر سے ہوتی ہے۔ اے اسمہ وذکرہ فی دفتر یہاں بھی تقدیر کلام کچھ یوں ہی معلوم ہوتی ہے۔ ان ذکر ہ فی زبر الاولین، یعنی ذکرہ (کشاف) اے ذکر انزال القران قالہ اکثر المفسرین (معالم) اے ذکر ھذا القران والتنویہ بہ (ابن کثیر) یعنی ذکرہ ثبت فی سائر کتب السماویۃ (مدارک) لیکن بہرحال الفاظ قرآنی سے یہ بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ ” قرآن “ کا ”(آیت) ” زبر الاولین “ میں ہونا ارشاد ہوگیا ہے۔ حالانکہ قرآن ان اگلی کتابوں میں بجنسہ عربی زبان میں نہیں اس لیے قرآن کا اطلاق غیر عربی کے قرآن پر بھی صحیح وصادق آتا ہے۔ ھذا مما یحتج بہ فی ان نقلہ فی لغۃ اخری لایخرجہ من ان یکون قرانا لاطلاق اللفظ بانہ فی زبر الاولین مع کونہ فیھا بغیر اللغۃ العربیۃ (جصاص) واحتج صاحب الکشاف والمدارک والھدایۃ علی القران قران وان ترجم بغیر العربیۃ فیکون دلیلا علی جواز قراء ۃ القران بالفارسیۃ فی الصلوۃ لانہ لم یکن فی زبر الاولین الابغیر العربیۃ (احمدی) فیہ دلیل علی ان القران قران اذا ترجم بغیر العربیۃ فیکون دلیلا علی جواز قراء ۃ القران قران اذا ترجم بغیر العربیۃ فیکون دلیلا علی جواز قراء ۃ القران بالفارسیۃ فی الصلوۃ (مدارک) اور یہیں سے امام ابوحنفیہ (رح) نے نماز میں فارسی ترجمہ قرآن خود قرآن کا قائم مقام قرار دیا ہے۔ واشتھر من الامام ابی حنیفۃ انہ جوز قراء ۃ القران بالفارسیۃ والترکیۃ والھندیۃ وغیر ذلک من اللغات مطلقا استدلالا بھذہ الایۃ وفی روایۃ تخصیص الجواز بالفارسیۃ (روح) لیکن محققین کا بیان ہے کہ بعد کو امام نے اپنی رائے سے رجوع بھی کرلیا تھا۔ اور اپنے استدلال کی خامی انہیں خود نظر آگئی۔ وقد صحح رجوعہ عن القول بجواز القراء ۃ بغیر العربیۃ مطلقا جمع من الثقات المحققین (روح) وکان رجوع الامام علی الرحمۃ عما اشتھرعنہ لضعف الاستدلال بھذہ الایۃ علیہ (روح) وقد صح رجوعہ عن قولہ وعلیہ الاعتماد (احمدی)
Top