Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 37
وَ قَالَ مُوْسٰى رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى مِنْ عِنْدِهٖ وَ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ رَبِّيْٓ : میرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ : اس کو جو جَآءَ : لایا بِالْهُدٰى : ہدایت مِنْ عِنْدِهٖ : اس کے پاس سے وَمَنْ : اور جس تَكُوْنُ : ہوگا۔ ہے لَهٗ : اس کے لیے عَاقِبَةُ الدَّارِ : آخرت کا اچھا گھر اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُفْلِحُ : نہیں فلاح پائیں گے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا پروردگار خوب جانتا ہے اس کو جو (دین) ہدایت لے کر اس کے پاس سے آیا ہے اور جس کو آخرت کا گھر ملنے والا ہے بیشک ظالم (کبھی) فلاح نہ پائیں گے،50۔
50۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے منکروں کی ہٹ دھرمی دیکھ کر آخر میں عاجز آکرکہا کہ خیر آج میری نہیں سنتے ہو تو نہ سنو اللہ کو تو خوب معلوم ہے کہ راہ ہدایت پر کون ہے اور ظالم کون ؟ عاقبت بخیر کس کی ہونا ہے اور محروم الفلاح کون ؟ (آیت) ” عاقبۃ الدار “۔ تقدیر کلام یوں سمجھی گئی ہے۔ العاقبۃ المحمودۃ فی الدار الاخرۃ (جلالین)
Top