Tadabbur-e-Quran - Maryam : 53
وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا
وَوَهَبْنَا : اور ہم نے عطا کیا لَهٗ : اسے مِنْ رَّحْمَتِنَآ : اپنی رحمت سے اَخَاهُ : اس کا بھائی هٰرُوْنَ : ہارون نَبِيًّا : نبی
اور ہم نے اپنے فضل سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر اس کو دیا
وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا۔ حضرت موسیٰ پر ایک اور فضل خاص ایک مددگار نبی کی بعثت : حضرت موسیٰ پر یہ فضل خاص بھی ہوا کہ کار نبوت کی انجام دہی میں ان کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بھائی حضرت ہارون کو ان کا وزیر اور مددگار بنایا اور ان کی یہ مدد محض رضاکارانہ نہیں بلکہ خدا کے ایک مامور و مسئول نبی کی حیثیت سے تھی۔ کسی رسول کی مدد کے لیے کسی نبی کا وزیر اور شریک کار کی حیثیت سے مقرر کیا جانا ایک امتیاز خاص ہے جو حضرات انبیائے کرام کی تاریخ میں حضرت موسیٰ کے سوا اور کسی کے لیے معلوم نہیں۔ حضرت موسیٰ پر فرعون جیسے جبار کے سامنے فرض رسالت ادائیگی اور بنی اسرائیل جیسی نکمی قوم کی اصلاح و تنظیم کی ذمہ داری جب ڈالی گئی تو وہ اس دوہری اور عظیم ذمہ داری سے بہت مضطرب ہوئے اور انہوں نے یہ دعا فرمائی کہ وجعل لی وزیرا من اھلی۔ ھرون اخی۔ اشدد بہ ازری۔ واشر کہ فی امری۔ کی نسبحک کثیرا۔ ونذکرک کثیرا : اے رب میرے لیے میرے اہل خاندان میں سے میرے بھائی ہارون کو وزیر مقرر کردے، اس کے ذریعہ سے میری کمر کو مضبوط کر اور اس کو میری ذمہ داری میں شریک کر تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ تیری تسبیح کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ تیرا ذکر پھیلا سکیں " (طہ : 29 تا 34)۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی یہ دعا قبول فرمائی اور اس کا ذکر سورة طٰہٰ میں ایک عظیم احسان کی حیثیت سے ہوا۔ اسی احسان کی طرف یہاں آیت زیر بحث میں اشارہ فرمایا ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہود نے حضرت ہارون کو بدنام کرنے کے لیے اپنے بعض سنگین جرائم کی ذمہ داری ان پر ڈال دی ہے لیکن قرآن نے ان کو ایک معصوم نبی کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
Top