Ahsan-ul-Bayan - Al-Israa : 55
وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا
وَمَنْ : اور کون۔ کس اَحْسَنُ : زیادہ بہتر دِيْنًا : دین مِّمَّنْ : سے۔ جس اَسْلَمَ : جھکا دیا وَجْهَهٗ : اپنا منہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَھُوَ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکو کار وَّاتَّبَعَ : اور اس نے پیروی کی مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَاتَّخَذَ : اور بنایا اللّٰهُ : اللہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم خَلِيْلًا : دوست
تیرا رب زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے برھ کر مرتبے دئیے اور ہم نے ہی دائود کو زبور دی تھی
ولقد فضلنا بعض النبین علی بعض۔ یہ فضیلت دہ ہے جس کی حقیقت اور سبب صرف اللہ کے علم میں ہے۔ اس فضیلت کے مظاہر پر ہم نے پارہ سو تم میں بحث کی ہے یعنی آیت۔ تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض کے ضمن ہیں۔ لہذا تفصیلات وہاں ہی ملاحظہ کریں۔ واتینا دائود زبورا۔ (55) ۔ یہ فضیلت کا ایک خاص نمونہ ہے۔ یعنی حضرت دائود کو جو کمالات دئیے گئے وہ دوسرے انبیاء میں نہ تھے ، زبور کا ذکر اس لئے کیا کہ کتاب دوسرے معجزات کے مقابلے میں بڑا معجزہ ہوتا ہے ، خصوصا بعض مخصوص اور متعین ادوار میں ۔ اس سبق کا خاتمہ بھی اسی مضمون پر ہوتا ہے جس سے آغاز ہوا تھ ایعنی اللہ کی بیٹیوں کی نفی اور شریکوں کی نفی اور یہ کہ دعاء و پکار میں صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور یہ کہ لوگوں کو نفع و نقصان دینے میں صرف اللہ ہی کارساز ہے۔ یہاں ان لوگوں کو چیلنج دیا جاتا ہے جو شرک کے قائل ہیں کہ وہ اپنے شریکوں کا ذرا پکاریں اور دیکھیں کہ وہ انہیں کیا فائدہ دے سکتے ہیں ؟ یا ان پر آنے والی کس مصیبت کا منہ موڑ سکتے ہیں ؟
Top