Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 125
وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا
وَمَنْ : اور کون۔ کس اَحْسَنُ : زیادہ بہتر دِيْنًا : دین مِّمَّنْ : سے۔ جس اَسْلَمَ : جھکا دیا وَجْهَهٗ : اپنا منہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَھُوَ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکو کار وَّاتَّبَعَ : اور اس نے پیروی کی مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَاتَّخَذَ : اور بنایا اللّٰهُ : اللہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم خَلِيْلًا : دوست
اور اس سے بڑھ کر کون ہوگا دین کے اعتبار سے جس نے اپنی ذات اللہ کے سپرد کردی۔ اس حال میں کہ وہ خوب کار بھی ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کی پیروی کرے جو بالکل یکسو تھا اور اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست بنایا
وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَمُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا ط وَاتَّخَذَاللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًا وَلِلّٰہِ مَا فی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ مُّحِیْطًا ع ” اور اس سے بڑھ کر کون ہوگا دین کے اعتبار سے جس نے اپنی ذات اللہ کے سپرد کردی۔ اس حال میں کہ وہ خوب کار بھی ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کی پیروی کرے جو بالکل یکسو تھا اور اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست بنایا اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے اور اللہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے۔ “ (النسآء : 125 تا 126) سب سے بہتر انسان اس آیت کریمہ نے سابقہ آیات کے مضمون کو تکمیل کی معراج تک پہنچا دیا ہے اور اس بات کا بھی جواب دے دیا کہ تم جو آپس میں افضلیت کی بحث میں پڑے ہوئے ہو ‘ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ دین کے اعتبار سے کون بہتر ہے۔ اس کی دو علامتیں بیان فرمائی ہیں ‘ ایک تو یہ فرمایا کہ دین کے اعتبار سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دل و جان سے جسم کی پوری توانائیوں کے ساتھ اس راستے پر پڑگیا جس راستے کا نام اسلام ہے۔ اور جسے قرآن و سنت نے واضح کیا ہے۔ پھر صرف اس راستے کا مسافر ہی نہیں بنا ‘ بلکہ اس نے اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کردیا اور پورے اخلاص کے ساتھ وہ اللہ کی رضا کو اپنی منزل بنا کر شریعت کے سفر پر چل نکلا ہے۔ اور دوسری علامت یہ ہے کہ وہ شریعت پر عمل نہ تو خود ساختہ طریقے سے کرتا ہے کہ جسے شریعت سمجھ لیا ویسے عمل کرلیا ‘ بلکہ وہ عمل کرنے میں پوری احتیاط سے کام لیتا ہے اس کا کوئی عمل سنت سے ہٹا ہوا نہیں ‘ اور دوسری یہ بات کہ عمل کرنے میں روایتی طریقے کا پابند نہیں کہ روا روی میں جیسے لوگ کر رہے ہیں ویسے ہی اس نے بھی کرلیا۔ جس طرح عادتاً بعض نیکیاں کرلی جاتی ہیں اسی طرح وہ بھی عادتاً بعض نیکیوں کو کرلیتا ہے لیکن اس کی اصل روح اس میں موجود نہیں ہوتی۔ یہاں اسے ” محسن “ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ محسن وہ ہوتا ہے جو ہر نیکی کو صحیح طریقے کے ساتھ ساتھ اس کے آداب اور حسن کے ساتھ انجام دے۔ جسے سنت کی زبان میں “ مقام احسان “ کہا گیا ہے۔ جس شخص میں یہ دو علامتیں پائی جائیں کہ وہ ظاہر کے اعتبار سے شریعت و سنت کا پابند اور عمل کو بدرجہ کمال انجام دینے والا اور باطن کے اعتبار سے اخلاص کا پیکر ہو۔ یہ وہ دولت ہے جو انسان کو اصل عزت و کرامت کا مستحق بناتی ہے۔ اور یہی ملت ابراہیمی کی پیروی ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا تھا اور انکو وہ مقام عطا فرمایا تھا جو اس وقت تک کسی کو نصیب نہ ہوسکا۔ اور یہ مقام انھیں اس لیے ملا تھا کہ وہ ہر طرف سے کٹ کر اللہ کے ہوگئے تھے۔ دوسری آیت کریمہ میں ان تمام باتوں کا حاصل ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ اللہ کے یہاں قبولیت کا سب سے بڑا درجہ یہ ٹھہرا کہ آدمی ظاہر و باطن سے اللہ کا ہوجائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقامات و مراتب اللہ کی ذات سے قرب و بعد کے حوالے سے طے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا غلام ہے ‘ اللہ کی ملکیت ہے۔ اللہ کا محتاج ہے۔ اور اللہ نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ جب ہر چیز اس کے احاطے اور اس کے تصرف میں ہے تو جو شخص اپنے آپ کو اس کے قریب کرنے میں کامیاب ہوجائے وہی ہر طرح کے مقام و مرتبہ کا مستحق ہوگا۔
Top