Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 64
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر لِيُطَاعَ : تاکہ اطاعت کی جائے بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ اِذْ ظَّلَمُوْٓا : جب انہوں نے ظلم کیا اَنْفُسَھُمْ : اپنی جانوں پر جَآءُوْكَ : وہ آتے آپ کے پاس فَاسْتَغْفَرُوا : پھر بخشش چاہتے وہ اللّٰهَ : اللہ وَاسْتَغْفَرَ : اور مغفرت چاہتا لَھُمُ : ان کے لیے الرَّسُوْلُ : رسول لَوَجَدُوا : تو وہ ضرور پاتے اللّٰهَ : اللہ تَوَّابًا : توبہ قبول کرنیوالا رَّحِيْمًا : مہربان
اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ اس غرض سے کہ اس کی اطاعت اللہ کے حکم سے کی جائے،193 ۔ اور کاش کہ جس وقت یہ اپنی جانوں پر زیادتی کربیٹھے تھے آپ کے پاس آجاتے پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتے، اور رسول بھی ان حق میں مغفرت چاہتے تو یہ ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے،194 ۔
193 ۔ یہاں یہ ارشاد ہورہا ہے کہ رسول کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اس کو حاکم اعلی اور مقتدا تسلیم کیا جائے اور امت اسی کے لائے ہوئے قانون اور بتلائی ہوئی شریعت پر چلنا سیکھے، ورنہ محض زبانی رسول مان لینے سے تو کوئی حاصل ہی نہیں۔ (آیت) ” من رسول “۔ میں من زاید تاکید کی غرض سے ہے۔ من زائدۃ للتاکید (قرطبی) (آیت) ” باذن اللہ “۔ اس قید نے واضح کردیا کہ مطاع حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے، رسول ﷺ مطاع اس کے نائب کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ 194 ۔ (اور ان کی توبہ قبول ہوگئی ہوتی) (آیت) ” اذ ظلموا انفسھم “۔ اپنی جان پر ظلم اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ رسول زندہ سلامت اپنے درمیان موجود اور پھر ان عدالت سے اعراض (آیت) ” فاستغفروا “۔ مغفرت چاہتے اپنے اس گناہ کی اور گناہ نفاق کی (آیت) ” جآؤک “۔ آپ کے پاس ندامت کے ساتھ حاضر ہوتے۔ تقدیر کلام یہاں یوں سمجھی گئی ہے۔ ثم جاؤک فامنوا واستغفروا “۔ استغفار کے لفظ میں خود ایمان کا مفہوم بھی شامل ہے۔ اس لئے امنوا کی تصریح کی ضرورت نہ رہی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بغیر ایمان لائے محض حاضری ہرگز کافی نہ تھی۔ (آیت) ” واستغفرلھم الرسول “۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایمان کے ساتھ حاضری اور پھر اللہ سے طلب مغفرت، یہ دونوں چیزیں یقیناً آپ ﷺ کے قلب سے اثر متاذی کو دور کردیتیں اور اس کے بجائے انشراح پیدا کردیتیں اور آپ ضرور ان کیلئے مغفرت طلب کرنے لگتے۔ ایک نو پیدا باطل فرقہ کا آیت کے یہ معنی کرنا کہ ” کتاب اللہ بھی انہیں معافی دے دیتی “ لغت اور قرآن دونوں کے ساتھ تمسخر ہے۔
Top