Tafseer-e-Majidi - Al-Ghaafir : 37
اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰى وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ وَ صُدَّ عَنِ السَّبِیْلِ١ؕ وَ مَا كَیْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِیْ تَبَابٍ۠   ۧ
اَسْبَابَ : راستے السَّمٰوٰتِ : آسمانوں فَاَطَّلِعَ : پس جھانک لوں اِلٰٓى : طرف، کو اِلٰهِ مُوْسٰى : موسیٰ کے معبود وَاِنِّىْ : اور بیشک میں لَاَظُنُّهٗ : اسے البتہ گمان کرتا ہوں كَاذِبًا ۭ : جھوٹا وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح زُيِّنَ : آراستہ دکھائے لِفِرْعَوْنَ : فرعون کو سُوْٓءُ عَمَلِهٖ : اس کے بُرے اعمال وَصُدَّ : اور وہ روک دیا گیا عَنِ : سے السَّبِيْلِ ۭ : (سیدھے) راستے وَمَا كَيْدُ : اور نہیں تدبیر فِرْعَوْنَ : فرعون اِلَّا : مگر، صرف فِيْ تَبَابٍ : تباہی میں
اور موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھو بھالوں اور میں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں،37۔ اور اسی طرح فرعون کو اس کی بدکرداری خوش نما کردی گئی اور وہ راہ (راست) سے رک گیا اور فرعون کی ہر تدبیر غارت ہی گئی،38۔
37۔ فرعون اس مرد مومن کی تقریروں کا تو کچھ جواب دے نہ سکا جواب ہو کر فرمائش ہامان سے یہ کردی۔ (آیت) ” یھامن “۔ ھامان پر حاشیہ سورة القصص (پ 20) میں گزر چکا۔ ھامان، جو دیوتا آمن کے مندر کا سب سے بڑا پروہت یا پجاری تھا۔ وہی سلطنت کا چیف انجینئر بھی ہوتا تھا یامان سے متعلق اسی سابق حاشیہ میں گذر چکا ہے کہ یہ شخصی نام نہیں بلکہ ایک عظیم الشان سرکاری عہدہ کالقب تھا جیسے فرعون خود شاہی لقب تھا۔ (آیت) ” ابن لی صرحا “۔ روایات یہود میں بھی آتا ہے کہ شاہ مصر کے لئے زمین و آسمان کے درمیان ایک محل تعمیر ہوا تھا۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ (آیت) ” انی لاظنہ “۔ لفظ ظن سے یہ خیال نہ گذرے کہ فرعون اس بات کو بطور فرض کے، یا شک کے ساتھ کہہ رہا تھا۔ ظن یقین کے معنی میں بھی آتا ہے۔ قیل ان الظن بمعنی الیقین اے وانا اتیقن انہ کاذب (قرطبی) 38۔ (اور بالآخروہ اپنے لاؤ لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو کر رہا) (آیت) ” وکذلک “۔ یعنی جس طرح کے سوء اعمال کی خوشنمائی کی ایک مثال ابھی اوپر فرعون کے قول میں گزر چکی۔ اے مثل ذلک التزیین وذلک الصد (مدارک) (آیت) ” زین ..... عملہ “۔ اس تزیین کی علت قریبہ تو ہمیشہ شیطان کی وسوسہ اندازی ہی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ وزین لہم الشیطان اعمالھم۔ لیکن علت بعیدہ تکوینی حیثیت سے خود ذات حق ہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ زینا لھم اعمالھم فھم یعمھون “۔
Top