Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
اے ایمان والو ! اپنے اوپر ان پاکیزہ چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لئے جائز کی ہیں حرام نہ کرلو اور حدود سے آگے نہ نکلو، بیشک اللہ حدود سے آگے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا،275 ۔
275 ۔ تحریم حلال کی ایک عام اور چلی ہوئی صورت یہ ہے کہ کسی جائز لذت سے بہ قصد قربت حق اپنے کو ہمیشہ کیلیے محروم کردیا جائے۔ غیر مذہب والے اس عادت کا شکار بہ کثرت ہوچکے ہیں کسی مسلمان کا ایسی جسارت کرنا گویا اس کا اقرار کرنا ہے کہ شریعت سے فلاں فلاں پرہیز کے مقرر نہ کرنے میں کمی ہوئی ہے اور اب میں اپنی عقل و تجربہ سے اس فروگذاشت کی تلافی کررہا ہوں، کسی جائز چیز سے کسی طبی یا انتظامی مصلحت کی بنا پر دست بردار ہوجانا اور چیز ہے اور بعض بزرگوں سے جو ترک لذات کے سلسلہ میں جو مجاہدے منقول ہیں، سمجھنا چاہیے کہ وہ اسی قبیل سے ہوں گے۔۔ کم از کم حسن ظن کا تقاضا تو یہی ہے۔ (آیت) ” لا تحرموا “۔ تحریم اعتقادی، تحریم قولی، تحریم عملی کی تینوں صورتوں پر شامل ہے۔ ای پاکیزہ تعتقدواتحریم ما احل اللہ تعالیٰ لکم ولا تظھروا باللسان تحریم ما احل اللہ لکم ولا تجتنبوا عنھا اجتنابا شبیہ الاجتناب من المحرمات (کبیر) (آیت) ” طیبت ما احل اللہ لکم “۔ ان پاکیزہ اور جائز چیزوں میں غذا، لباس، ازدواج وغیرہ ہر قسم کی لذتیں آگئیں اور طیبات کے تحت میں ہر وہ جائز لذت شامل ہے جس کی طرف قلب اور طبیعت کو میلان ہوتا ہے۔ الطیبات اللذیذات التی تشتھیھا النفوس وتمیل الیھا القولب (کبیر) الطیبات اسم یقع علی ما یستلذ ویشتھی ویمیل الیہ القلب (جصاص) (آیت) ” ولا تعتدوا “۔ اعتداء یاحدود سے نکل جانا یہی ہے کہ شریعت کی احتیاطوں اور قیدوں کو ناکافی سمجھ کر ان پر اپنی رائے تو تجویز سے اضافہ کرلیا جائے یا اسکے برعکس انہیں زیادہ سمجھ کر ان میں سے کچھ چیزوں کو گھٹا دیاجائے۔ جو حکمت یا صنعت ہر لحاظ سے اکمل اور ہر اعتبار سے اجمل ہو اس میں ایک ذرہ کا اضافہ کردینا بھی اس کے کمال حسن کے غارت کردینے کے لیے ایسا ہی کافی ہے جیسا اس میں سے گھٹا دینا یا نکال دینا، فالنھیان علی ھذا تضمنا الطرفین ای لاتشددوا فتحرمو احلالا ولا تترخصوا فتحلوا حراما (قرطبی) ای لا تبالغوا فی التضییق علی انفسکم تحریم المباحات علیکم کما قال من قالہ من السلف (ابن کثیر) محققین نے کہا ہے کہ آیت میں دو طرفہ رد ہے۔ ایک طرف رد زہاد متشدد دین کا اور دوسری رخصت میں بہت ڈھیل ڈال دینے والے صوفیہ اہل باطل کا۔ قال علماء نافی ھذہ الایۃ وما شابھھا رد علی غلاۃ المتزھدین وعلی اھل البطالۃ من المتصوفین (قرطبی)
Top