Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 88
وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاکیزہ وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جس اَنْتُمْ : تم بِهٖ : اس کو مُؤْمِنُوْنَ : مانتے ہو
اور اللہ نے جو کچھ تمہیں حلال، پاکیزہ چیزیں دے رکھی ہیں ان میں سے کھاؤ (پیو) اور اسی اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو،276 ۔
276 ۔ (کہ یہ تقوی یا خوف خدا ہی کی راہ اعتدال و احتیاط وفرمانبرداری پر قائم رکھے گا) اسلامی شریعت کے احکام عقلاء وحکماء کے گڑھے ہوئے نہیں کہ ان میں کسی قسم کی ترمیم، تنقید، اضافہ واصلاح کی گنجائش ہو۔ وہ تو تمامتر حکیم مطلق اور حاکم برحق کے مقرر کیے ہوئے ہیں، اس میں اپنی رائے وتجویز کو دخل دینا مقتضیات ایمان کے سرتاسر خلاف اور حاکمیت الہی سے بغاوت ہے۔ فقہاء محققین نے لکھا ہے کہ جو غذائیں شریعت الہی نے حلال وطیب قرار دی ہیں انہیں چھوڑ دینے میں کوئی دینی فضیلت ہرگز نہیں۔ جیسا کہ خود ساختہ مذہبوں نے ترک لذائذ کو ایک معیار تقوی ومقبولیت سمجھ رکھا ہے۔ یدل علی انہ لا فضیلۃ فی الامتناع من اکلھا (جصاص) خود رسول اللہ ﷺ نے گوشتوں میں علاوہ بکری، بھیڑ، اونٹ وغیرہ کے مرغ کا گوشت بھی تناول فرمایا ہے۔ قد روی ابوموسی الاشعری انہ رای النبی ﷺ یا کل لحم الدجاج (جصاص) فواکہ اور شیرینی اور حلوے کی دوسری لذیذ قسمیں بھی آپ ﷺ سے نوش فرمانا ثابت ہیں۔ رای انہ کان یا کل الرطب والبطیخ (جصاص) روی ان رسول اللہ ﷺ کان یا کل الدجاج والفالوذ وکان یعجبہ الحلواء والعسل (مدارک) (آیت) ” کلوا “۔ کے امرواجازت کا دائرہ صرف کھانے کی چیزوں تک محدود نہیں۔ کھانے، پینے، پہننے، اوڑھنے، سواری ومکان غرض برتنے کی ساری چیزیں اس کے اطلاق میں داخل ہیں۔ الاکل فی ھذہ الایۃ عبارۃ عن التمتع بالاکل والشرب واللباس والرکوب ونحوذلک (قرطبی) ابن عباس ؓ صحابی نے فرمایا کہ جو چاہو کھاؤ جو چاہو، پیو، بس لحاظ صرف اس کا رکھو کہ اسراف اور فخر ونمائش کے حدود تک نہ پہنچ جاؤ۔ عن طاؤس قال سمعت ابن عباس ؓ یقول کل ما شئت واکتس ما اخطأت اثنتین سرفا اومخلیۃ (جصاص) فقیہ جصاص رازی نے لکھا ہے کہ صحابیوں میں حضرت عثمان ؓ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ حضرت حسن ؓ ، حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ ، حضرت عمران بن حصین ؓ حضرت انس بن مالک ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور مشہور تابعی قاضی شریح سے لباس میں پشمینہ کا استعمال ثابت ہے (احکام القرآن) (آیت) ’ ’ کلوا “۔ صیغہ امر ہے لیکن مراد یہاں وجوب نہیں صرف اباحت ہے۔ کلوا صیغۃ امر وظاھر ھا للوجوب الا ان المراد ھھنا للاباحۃ والتحلیل (کبیر) (آیت) ” مما رزقکم اللہ “ میں۔ من۔ تبعیض کے لیے ہے اس میں ادھر اشارہ ہے کہ جائز چیزوں میں سے کچھ کھاؤ پیو اور کچھ دوسروں کی نذر کردو، تاکہ اسراف سے بھی بچے رہو۔ کلمۃ من للتبعیض فاکانہ قال اقتصروا فی الاکل علی البعض واصرفوا البقیۃ الی الصدقات والخیرات لانہ ارشاد الی ترک الاسراف کما قال ولا تسرفوا (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں رسم ترک حیوانات کا ابطال ہے جو بعض مدعیان طریقت کا طریق ہے۔
Top