Tafseer-e-Majidi - An-Najm : 40
وَ اَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى۪
وَاَنَّ سَعْيَهٗ : اور یہ کہ اس کی کوشش سَوْفَ يُرٰى : عنقریب دیکھی جائے گی
اور یہ کہ انسان کی سعی بہت جلد دیکھ لی جائے گی،33۔
33۔ (سو اس اطلاع اور اعلان کے بعد بھی انسان کا اپنی ذاتی ذمہ داری کی طرف سے غافل رہنا کیسا عجیب ہے) (آیت) ” الانسان “۔ الانسان سے یہاں مراد کافر انسان سے لی گئی ہے، نہ کہ مطلق انسان سے۔ وقالالربیع الانسان ھنا الکافر واما ال مومن فلہ ماسعی لہ غیرہ (روح) وقال الربیع بن انس یعنی الکافر (معالم) (آیت) ” وان ..... سعی “۔ یعنی ایک کا ایمان دوسرے کے کام نہ آئے گا۔ مشرک جاہلی قوموں میں تو خیر یہ وبا عام تھی ہی۔ یہود اہل کتاب کے ہاں بھی یہ عقیدہ پختہ طور پر قائم ہوگیا تھا کہ مورثوں اور بزرگوں کا مقبولین میں سے ہونا۔ اخلاف واولاد کے لئے بالکل کافی ہے اور جو لوگ پیغمبروں کی نسل میں سے ہیں انہیں کچھ ہاتھ پیر ہلانے بلکہ تصحیح عقائد پر ٹھہرا دیا۔ قرآن مجید اس کے برعکس سارا زور ہر فرد کی ذمہ داری اور مسؤلیت پر دیتا ہے اور نجات کا دارومدار بعد فضل خداوندی کے اسی کو ٹھہراتا ہے۔ چانچہ یہاں بھی اسی مسئلہ کا اثبات ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ کوئی شخص اپنے کسی دوست، عزیز، بزرگ وغیرہ کے لئے اپنے کچھ حقوق اپنی خوشی سے چھوڑ دے تو یہ اس آیت کے ہرگز منافی نہیں۔ یہ تو مومن کے حق میں دوسرے مومن کی طرف سے صورت دعا کی ہے، یہ کیوں نہ قبول ہوگی، اور مسئلہ ایصال ثواب اموات کا احادیث صحیحہ متعددہ کی بناء پر اپنی جگہ پر بالکل ثابت ہے۔ وردت اخبار صحیحۃ بنفع الصدقۃ عن المیت منھا مااخرجہ مسلم والبخاری وابو داؤد والنسائی (روح) اور فقہاء مفسرین نے اس کی متعدد توجہیات درج کی ہیں۔ واما ماصح فی الاخبار من الصدقۃ عن المیت والحج عنہ فقد قیل ان سعی غیرہ لما لم ینفعہ الانبیا علی سعی نفسہ وھو ان یکون مومن اکان سعی غیرہ کانہ سعی نفسہ لکونہ تابعالہ وقائما بقیامہ ولان سعی غیرہ لاینفعہ اذا عملہ لنفسہ ولکن اذا نواہ بہ فھو بحکم الشرع کالنائب عنہ والوکیل القائم مقامہ (مدارک)
Top