Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 40
وَ اَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى۪
وَاَنَّ سَعْيَهٗ : اور یہ کہ اس کی کوشش سَوْفَ يُرٰى : عنقریب دیکھی جائے گی
اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی
وان سعیہ سوف یرٰی . اور یہ کہ انسان کی کوشش بہت جلد دیکھی جائے گی۔ یعنی انسان اگر مؤمن ہے تو قیامت کے دن وزن اعمال کے وقت اس کی سعی سامنے آجائے گی اور دیکھ لی جائے گی۔ لیکن کافر کے اعمال اکارت جائیں گے کیونکہ اعمال کے بار آور ہونے کی اوّلین شرط خلوص نیت ہے اور اس کا عمل خیر لوجہ اللہ نہیں ہوتا یا اعمال کے اکارت جانے کی یہ وجہ ہوگی کہ دنیا میں ہی وہ اپنی بھلائیوں کا بدلہ پا چکتا ہے (کوئی نیکی باقی ہی نہیں رہتی) ۔ میں کہتا ہوں اولیٰ یہ ہے کہ اس جگہ سعی کا ترجمہ ارادہ کرنا ‘ کیا جائے۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے : سَعٰی سَعْیًا : بروزن رعٰی قصد کیا ‘ عمل کیا ‘ چلا ‘ دوڑا ‘ پورا ہوگیا ‘ کمایا۔ بعض محققین نے کہا کہ سعی کا (لغوی) معنی ہے تیز چلنا اور کسی کام کی کوشش کرنے کیلئے اسکا استعمال ہوتا ہے۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ انسان کو وہی ملے گا جسکے لیے اس نے اپنے عمل سے ارادہ کیا ہو (یعنی عمل کی نیت کے موافق عمل کا نتیجہ ہوگا) ایک صحیح حدیث ہے : انما الاعمال بالنیات وان لکل امرء مانوی فمن کانت ھجرتہ الی اللہ و رسولہ فھجرتہ الی اللہ و رسول ومن کانت ھجرتہ الی الدنیا یصیبھا او الی امراء ۃ نکحھا فھجرتہ الی اما ھاجر الیہ . [ متفق علیہ ] اعمال (کا نتیجہ) نیتوں کے مطابق ہوگا ‘ ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی ‘ سو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہوگی تو اس کی ہجرت بیشک اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی مقصد کی طرف ہوگی ‘ جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہوگی۔ (بخاری و مسلم) بصورت مذکورہ آیت کا مطلب بھی اس حدیث کے موافق ہوگا۔ اس مطلب پر یہ لازم نہیں آتا کہ ایک کا عمل دوسرے کے لیے فائدہ بخش نہ ہو۔ دیکھو جنازہ کی نماز اور رسول اللہ ﷺ کے لیے درود پڑھنا واجب ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہی ان کو واجب کیا گیا ہے۔
Top