Tafseer-e-Baghwi - An-Najm : 40
وَ اَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى۪
وَاَنَّ سَعْيَهٗ : اور یہ کہ اس کی کوشش سَوْفَ يُرٰى : عنقریب دیکھی جائے گی
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
39 ۔” وان لیس للانسان الا ماسعیٰ “ یعنی جو اس نے عمل کیا اللہ تعالیٰ کے قول ” ان سعیکم لشتیٰ “ کی طرح اور یہ بھی ابراہیم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں لکھا ہوا تھا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ اس شریعت میں منسوخ الحکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قول ” الحقنابھم ذریتھم “ کی وجہ سے۔ پس اولاد کو آباء کی نیکیوں کی وجہ سے جنت میں داخل کیا جائے گا اور عکرمہ (رح) فرماتے ہیں یہ ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کی قوم کے لئے تھا۔ بہرحال یہ امت تو ان کے لئے وہ ہے جو انہوں نے عمل کیا اور جوان کے لئے دوسروں نے عمل کیا۔ اس حدیث کی وجہ سے جو روایت کی گئی ہے کہ ایک عورت اپنے بچہ کو اٹھا کر لائی اور عرض کیا یارسول اللہ ! کیا اس کے لئے حج ہے ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا : ہاں اور تیرے لئے اجر ہے اور ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کو کہا میری ماں نے خود کشی کرلی ہے ۔ پس کیا اس کو اجر ملے گا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں۔ ربیع بن انس (رح) فرماتے ہیں ” وان لیس للانسان الا ماسعیٰ “ یعنی کافر۔ بہرحال مومن تو اس لئے وہ بھی ہے جو اس نے خود عمل کیا اور وہ بھی جو اس کے لئے عمل کیا گیا۔ کہا گیا ہے کہ کافر کے لئے خیر میں سے کچھ نہیں مگر جو اس نے خود عمل کیا ہو۔ پس اس پر دنیا میں ثواب دیا جائے گا حتیٰ کہ اس کے لئے آخرت میں کوئی خیر باقی نہ رہے گی اور روایت کیا گیا ہے کہ عبداللہ بن ابی نے عباس ؓ کو قمیص دی اور ان کو پہنائی۔ پس جب وہ مرا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی قمیص بھیجی تاکہ اس کو اس میں کفن دیا جائے۔ پس اس کے لئے آخرت میں کوئی ایسی نیکی نہ بچی جس پر اس کو ثواب دیا جائے۔
Top