Tafseer-e-Majidi - Al-Hashr : 6
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : اور جو دلوایا اللہ نے عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسولوں کو مِنْهُمْ : ان سے فَمَآ : تو نہ اَوْجَفْتُمْ : تم نے دوڑائے تھے عَلَيْهِ : ان پر مِنْ خَيْلٍ : گھوڑے وَّلَا رِكَابٍ : اور نہ اونٹ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يُسَلِّطُ : مسلط فرماتا ہے رُسُلَهٗ : اپنے رسولوں کو عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس پر وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے بطور فئے دلوایا، سو تم نے اس کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ،10۔ بلکہ اللہ اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہے غلبہ دے دیتا ہے اور اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے،11۔
10۔ یعنی اس کے لئے یہ تمہیں منزل در منزل سفر کی مشقتیں طے کرنا پڑیں، اور نہ قتل و قتال کی نوبت آئی۔ اس لئے تمہارا کوئی حق ہی اس مال کی تملیک وتقسیم پر قائم نہیں ہوتا۔ جیسا کہ جنگ و قتال کے بعد مال غنیمت کے جیتنے پر ہوجاتا ہے۔ (آیت) ” ومآافآء اللہ “۔ فئے اصطلاح فقہ میں وہ مال ہے جو اہل حرب سے بلاقتل حاصل ہوجائے۔ قال الازھری الفیء ما ردہ اللہ علی اھل دینہ من اموال من خالف اھل دینہ بلا قتال (کبیر) بنی نضیر سے یہ حاصل کیا ہوامال اسی قبیل سے تھا، اور فدک اور نصف خیبر بھی اسی کے تحت میں آتے ہیں۔ (آیت) ’ علی رسول اللہ ﷺ کی ملک تھیں۔ لیکن آپ ﷺ کے بعد یہ محل میراث نہ تھیں، بلکہ وقف تھیں۔ اور یہ حکم خصوصیات ذات رسالت ﷺ میں سے تھا۔ ان کے مصارف کا حکم جو ابھی آرہا ہے : وہ اسی طرح کا ہے، جیسے اہل نصاب کے لئے زکوٰۃ و صدقہ کے مصارف ہیں۔ فقہاء نے آیت سے استنباط کیا ہے کہ حربی کافروں کے قلعوں کو آلات کی مدد سے توڑنا پھوڑنا، ان کے مکانات کو گرانا، اجاڑنا، ان کے باغوں کو کاٹ ڈالنا، ویران کردینا، سب جائز ہے۔ احتج العلماء بھذہ الایۃ علی ان حصوں الکفرۃ ودیارھم لابأس ان تھدم وتحرق وتفرق وترمی بالمجانیق کذلک اشجارھم لاباس بقلعھا مثمرۃ کانت اوغیر مثمرۃ (کبیر) 11۔ (پس وہ جس طرح بھی چاہے دشمنان دین کو مغلوب ومقہور کرے، اور جس طرح بھی چاہے اپنے رسول کو مختارومتصرف بنادے) (آیت) ” لکن ..... یشآء “۔ چناچہ کبھی حسب مقتضائے حکمت ومصلحت وہ بلامشقت وتعب بھی انہیں غلبہ دے دیتا ہے۔ اس وقت بھی اس نے اسی طرح بےلڑے بھڑے اپنے رسول کو غلبہ دے دیا، اس لئے اس میں تمہارا کوئی حق نہیں، مالکانہ تصرف صرف رسول کی رائے پر ہے۔
Top