Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 121
وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌ١ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْ١ۚ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
وَلَا تَاْكُلُوْا : اور نہ کھاؤ مِمَّا : اس سے جو لَمْ يُذْكَرِ : نہیں لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِسْقٌ : البتہ گناہ وَاِنَّ : اور بیشک الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) لَيُوْحُوْنَ : ڈالتے ہیں اِلٰٓي : طرف (میں) اَوْلِيٰٓئِهِمْ : اپنے دوست لِيُجَادِلُوْكُمْ : تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں وَاِنْ : اور اگر اَطَعْتُمُوْهُمْ : تم نے ان کا کہا مانا اِنَّكُمْ : تو بیشک لَمُشْرِكُوْنَ : مشرک ہوگے
اور اس (جانور) میں سے مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو بیشک یہ بےحکمی ہے اور بیشک شیاطین اپنے دوستوں کو پٹی پڑھا رہے ہیں تاکہ وہ تم سے حجت کریں اور اگر تم ان کا کہا ماننے لگو تو یقیناً تم (بھی) مشرک ہوجاؤ گے،176 ۔
176 ۔ (اے مسلمانو ! ) (آیت) ” ولا تاکلوا ممالم یذکر اسم اللہ علیہ وانہ لفسق “۔ مشرک وملحد تو بہرحال اللہ کا نام نہ لے گا۔ اس لیے اس کا ذبیحہ تو کھلا ہوا حرام ہے۔ سوال صرف مسلمان کے ترک تسمیہ کے باب میں رہ جاتا ہے۔ سو مسلم کے لیے بھی ذبح کرتے یا شکاری جانور چھوڑتے وقت ترک تسمیہ کی دو صورتیں ممکن ہیں، یا عمدا و دانستہ ہو، اور یا محض سہو ونسیان سے ہو۔ امام ابوحنفیہ (رح) اور بہت سے دوسرے فقیہوں اور بعض تابعین کا مذہب یہ ہے کہ یہ ممانعت و حرمت صرف اس صورت کے لیے ہے۔ جب ترک تسمیہ دانستہ وعمدا ہو۔ ان ترکھا عمدا لم یؤکلا قالہ مالک ؓ وابن القاسم وھو قول ابی حنیفۃ و اصحابہ والثوری والحسن بن حی و عیسیٰ وقالہ سعید بن جبیر وعطاء واختارہ النحاس وقال ھذا حسن لانہ لایسمی فاسقا اذا کان ناسیا (قرطبی) قال اصحابنا ومالک والحسن بن صالح ان ترک المسلم التسمیۃ عمدا لم یؤکل وان ترکھا ناسیا اکل (جصاص) اور مفسر ابن کثیر (رح) نے اس مذہب کی تائید میں حضرت علی اور حضرت ابن عباس ؓ جیسے صحابیوں اور سعید بن المسیب اور طاؤس اور عطاء اور حسن بصری جیسے تابعین اور ابوحنیفہ (رح) اور مالک (رح) اور احمد بن حنبل (رح) اور ابویوسف (رح) جیسے ائمہ فقہ کے نام گنائے ہیں۔ المذھب الثالث فی المسئلۃ ان ترک التسمیۃ علی الذبیحۃ نسیانا لم یضروان ترکھا عمدالم تحل ھذا ھو المشہور من مذھب الامام مالک واحمد بن حنبل وبہ یقول ابوحنیفۃ و اصحابہ واسحاق بن راھویہ وھو یحکی عن علی وابن عباس و سعید بن المسیب وعطاء وطاؤس والحسن البصری وابن مالک وعبدالرحمن بن ابی لیلی وجعفر بن محمد وربیعۃ بن ابی عبدالرحمن (ابن کثیر) اور اس حکم حرمت کے تحت میں وہ ذبیحے بھی آجاتے ہیں جن پر اللہ کے بجائے کسی اور کا نام لے دیا جائے۔ یا اللہ کے ساتھ ملا کر بھی کسی اور کا نام لے لیاجائے۔ ویدخل فیہ ما ذکر علیہ غیر اسم اللہ بعموم انہ لم یذکر علیہ اسم اللہ وبزیادۃ ذکر غیر اسم اللہ سبحانہ علیہ الذی یقتضی تحریمہ نصا (قرطبی (آیت) ” ان الشیطین لیوحون الی اولیھم لیجادلوکم “۔ مشرکین اپنے شیطانوں سے تعلیم پاکر مسلمانوں کے سامنے آکر طرح طرح کی بحثیں اور حجتیں نکالا کرتے تھے۔ مثلا ایک چلتا ہوا فقرہ یہ تھا کہ یہ کیا کہ انسان مارڈالے جب تو جانور حلال ہوجائے لیکن جس جانور کو خدا مارے یعنی وہ اپنے آپ سے مرجائے وہ حرام ہو۔ ہزار ہا سیدھے سادھے، بھولے بھالے مسلمان پہلے بھی اس طرح کے لفظی دھوکوں اور مغالطوں میں آجاتے تھے، اور آج بھی ایسے ہی ظاہر فریب، دل خوش کن فقروں میں برابر آتے رہتے ہیں۔ خود امت کے اندر جتنے باطل فرقے نکلے ہیں۔ سب کی بنیاد کسی نہ کسی ایسے ہی مغاطلہ پر ہے۔ (آیت) ” انہ لفسق “۔ یہاں فسق یا نافرمانی ان دونوں چیزوں کو کہا گیا ہے۔ ترک تسمیہ کو بھی اور ایسے ذیبحہ کے کھانے کو بھی۔ ھو راجع الی الامرین یعنی ترک التسمیۃ ومن الاکل (جصاص) الضمیر قیل عائد علی الاکل وقیل عائد علی الذبح بغیر اللہ (ابن کثیر) (آیت) ” وان اطعتموھم “۔ سیاق چاہتا ہے کہ یہ اطاعت اسی مسئلہ تحلیل مردار میں مراد ہو۔ ای فی تحلیل المیتۃ (قرطبی) (آیت) ” وان اطعتموھم انکم لمشرکون “۔ آیت سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال ٹھہرا لینا انسان کو مشرک بنا دیتا ہے۔ دلت الایۃ علی ان من استحل شیئا مما حرم اللہ تعالیٰ صاربہ مشرکا (قرطبی) قال الزجاج وفیہ دلیل علی ان من احل شیئا مما حرم اللہ او حرم ما احل اللہ فھو مشرک (معالم) لیکن یہ تفصیل بھی فقہاء ہی نے کردی ہے کہ مشرک بنادینے والی وہ اطاعت ہے جو عقیدۂ قلب کے ساتھ ہو ورنہ محض عملی تقلید درجہ معصیت تک رکھے گی، منزل کفر تک نہ پہنچائے گی انما یکون المومن بطاعۃ المشرک مشرکا اذا اطاعۃ فی الاعتقاد وان اطاعہ فی الفعل وعقدہ سلیم مستمر علی التوحید والتصدیق فھو عاص (ابن العربی) آیت سے یہ بھی نکالا گیا ہے کہ ایمان کا اطلاق جمیع پر ہوتا ہے۔ جس طرح شرک کے مفہوم میں ہر مخالفت امر الہی داخل ہے۔ قال الکعبی الایۃ حجۃ علی ان الایمان اسم لجمیع الطاعات کما جعل تعالیٰ الشرک اسما لکل ما کان مخالفا للہ تعالیٰ (کبیر)
Top