Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 178
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ١ۖ٘ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا : اور ہم نے پیدا کیے لِجَهَنَّمَ : جہنم کے لیے كَثِيْرًا : بہت سے مِّنَ : سے الْجِنِّ : جن وَالْاِنْسِ : اور انسان لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل لَّا يَفْقَهُوْنَ : سمجھتے نہیں بِهَا : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَعْيُنٌ : آنکھیں لَّا يُبْصِرُوْنَ : نہیں دیکھتے بِهَا : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کیلئے اٰذَانٌ : کان لَّا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے بِهَا : ان سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ كَالْاَنْعَامِ : چوپایوں کے مانند بَلْ : بلکہ هُمْ : وہ اَضَلُّ : بدترین گمراہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْغٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
اور بیشک ہم نے دوزخ کے لئے بہت سے جنات اور انسان پیدا کئے ہیں،259 ۔ ان کے دل ہیں (مگر) یہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں (مگر) ان سے دیکھتے نہیں اور انکے کان ہیں (مگر) ان سے سنتے نہیں، یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ یہ ان سے بھی بڑھ کر بےراہ ہیں یہی لوگ تو غافل ہیں،260 ۔
259 ۔ یعنی ایسے لوگ پیدا کئے ہیں جو نہ قصد اور طلب ہدایت کی کریں گے۔ اور نہ ہدایت انہیں نصیب ہوگی اس لیے لامحالہ انکا ٹھکانا دوزخ میں ہوگا۔ حق تعالیٰ کی طرف اس فعل کا انتساب محض تکوینی حیثیت سے یعنی بہ طور العلل کے ہے نہ یہ کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہی یہ ہے۔ (آیت) ” لجھنم “۔ میں ل عاقبت کا ہے یعنی ان کی غرض آفرینش یہ نہیں بلکہ وہ اعمال ایسے اختیار کریں گے جس کا نتیجہ یہ ہو کر رہے گا۔ واللام للعاقبۃ عند الکثیر (روح) توریت وانجیل، دونوں میں یہ مضمون وارد ہوا ہے :۔ ” شریر ہلاکت کے دن کے لیے رکھ چھوڑا گیا ہے۔ “ (ایوب 2 1:30) ” خداوند نے ہر ایک چیز اپنے لئے بنائی ہاں شریروں کو بھی اس نے برے دن کے لیے بنایا۔ (امثال 16:4) یہ لوگ بےعقل جانوروں کی مانند ہیں جو پکڑے جانے اور ہلاک ہونے کے لیے حیوان مطلق پیدا ہوئے ہیں۔۔۔ اپنی خرابی میں خود خراب کیے جائیں گے۔ “ (2 پطرس 2: 12) ۔ 260 ۔ یعنی عقل سے کام لینے میں اور فکر آخرت رکھنے سے بےپروارہتے ہیں۔ (آیت) ” بل ھم اضل “۔ کیونکہ چوپائے تو ہدایت کے مکلف ہی نہیں یہ مکلف ہونے پر بھی اس قدر بےتوجہ ہیں۔ جو لوگ انسان انسان کو بلاقید کفر واسلام مساوی سمجھتے ہیں وہ دیکھیں کہ قرآن نے کافر کا درجہ مراتب انسانیت میں کتنا پست رکھا ہے کہنا چاہیے کہ اسے دائرہ انسانیت ہی سے خارج کردیا ہے۔ (آیت) ” لھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اذان لایسمعون بھا “۔ یعنی یہ لوگ دل، آنکھ اور کان سے حق کے سوچنے سمجھنے حق کے دیکھنے بھالنے، حق کے سننے سنانے کا کبھی کام ہی نہیں لیتے۔ (آیت) ” اولئک کالانعام “۔ ایک مضمون توریت میں اس سے ملتا جلتا ہوا ملتا ہے :۔ بیل اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور گدھا اپنے صاحب کی چرنی کو۔ بنی اسرائیل نہیں جانتے یہ لوگ کچھ نہیں سوچتے۔ (یسعیاہ۔ 1:3) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت کا مدلول لفظی تو یہ ہے کہ غفلت عن اللہ سبب ہوتی ہے دوزخ کا۔ لیکن مدلول قیاسی یہ ہے کہ غفلت عن اللہ سبب بن جاتی ہے شہوات وحرص دنیا کے جہنم کی۔ جیسا کہ ذکر الہی سبب بن جاتا ہے دنیا میں جنت قناعت وانوار کا۔ اور یہ دونوں مشاہدات دنیا میں برابر ہوتے رہتے ہیں۔
Top