Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 178
مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِیْ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
مَنْ : جو۔ جس يَّهْدِ : ہدایت دے اللّٰهُ : اللہ فَهُوَ : تو وہی الْمُهْتَدِيْ : ہدایت یافتہ وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلْ : گمراہ کردے فَاُولٰٓئِكَ : سو وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : گھاٹا پانے والے
جس کو خدا ہدایت دے وہی راہ یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
من یہد اللہ فہو المہتدی ومن یضلل فاولئک ہم الخسرون . جس کو اللہ ہدایت کرتا ہے سو ہدایت پانے والا وہی ہوتا ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے تو ایسے ہی لوگ خسارہ میں رہتے ہیں۔ فمثلہ یعنی اس کی ذلت کی حالت ایسی ہے۔ کمثل الکلبجی سے کتے کی ذلیل ترین حالت یلہث کہ وہ ہر حال میں زبان باہر نکال دیتا ہے ہانپتا ہے پیاس ہو تھکان ہو اس کو ڈانٹ ڈپٹ کی جائے اور دھتکار کر باہر نکالا جائے یا ایسا نہ کیا جائے بہرحال وہ ذلت کے ساتھ زبان باہر نکالے رہتا ہے دوسرے جانوروں کی حالت ایسی نہیں ہے وہ اسی وقت ہانپتے اور زبان باہر نکالتے ہیں جب کوئی خاص سبب ہو تھک جائیں پیاس لگی ہو یا کوئی اور محرک ہو تب وہ زبان باہر نکال دیتے ہیں۔ مجاہد نے کہا یہ حالت اس شخص کی ہوتی ہے جو قرآن پڑھتا تو ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا مطلب یہ کہ کافر کو تم تنبیہ کرو نصیحت کرو یا کچھ کرو وہ کفر سے باز نہیں آتا کچھ نہ کرو تب بھی ہدایت نہیں حاصل کرتا ہمیشہ ہر حال میں گمراہ اور ذلیل رہتا ہے وہ ذلت میں ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کتا جو ہمیشہ زبان باہر لٹکائے رہتا ہے۔ اسی کی ہم معنی ایک اور آیت آئی ہے فرمایا ہے : (وَاِنْ تَدْعُوْہُمْ اِلَی الْہُدٰی لاَ یَتَّبِعُوْکُمْ سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ اَدَعَوْتُمُوْہُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ ) ۔ ذٰلکَ مَثل القوم الذین کذبوا بٰایٰتِنَا یعنی یہ حالت ہے ان یہودیوں کی جنہوں نے آیات کی تکذیب کی۔ رسول اللہ ﷺ کے احوال وصفات کو خود توریت میں پڑھا اور لوگوں کو پیغمبر آخر الزماں کی بعثت قریب ہونے کی بشارت دیتے رہے لیکن جب آپ مبعوث ہوگئے اور ان کے سامنے آگئے اور معجزات ظاہر کردیئے اور قرآن پیش کیا جو عظیم الشان معجزہ ہے اور یہودیوں نے آپ کو یقینی طور پر بغیر کسی شبہ کے پہچان بھی لیا جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں تو توریت کی آیات سے صاف نکل گئے اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا انکار کردیا اور زبان لٹکائے ہوئے کتے کی طرح ذلیل ہوگئے توریت کی تنبیہات اور نصیحتوں نے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ تمثیل مذکور کے حکم میں عام طور پر وہ تمام لوگ داخل ہیں جو آیات الٰہیہ کی تکذیب کرتے ہیں۔ فاقصص القصص پس یہودیوں کے سامنے آپ وہی حال بیان کیجئے جو اوپر ذکر کردیا گیا تاکہ وہ سوچیں اور غور کر کے نصیحت پذیر ہوجائیں اور شخص مذکور کی بدانجامی سے عبرت اندوز ہو کر اس کی رفتار پر نہ چلیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ تمثیل مذکور میں کفار مکہ مراد ہیں ان کو پہلے آرزو تھی کہ کوئی ہادی ہوتا جو ان کو سیدھا راستہ دکھاتا اور کوئی داعی اللہ کی طرف آنے کی دعوت دیتا لیکن جب رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوگئے تو باوجودیکہ کافروں کو آپ کی صداقت میں پہلے کبھی شک نہ تھا لیکن رسالت کے دعوے کی تکذیب کرنے لگے اور ہدایت یاب نہ ہوئے دعوت دینا نہ دینا دونوں ان کے لئے یکساں ہوگیا۔ وانفسہم کانوا اس کا عطف کذبوا پر ہے یا سابق کلام سے یہ بالکل جدا ہے (اور تقدیم مفعول حصر کے لئے ہے) مطلب اس طرح ہوگا وہ نہیں ظلم کرتے مگر اپنے ہی اوپر وبال تکذیب انہی پر پڑے گا۔ فہو المہتدی چونکہ منکا لفظ مذکر تھا اس رعایت سے مذکر غائب کی ضمیر ذکر کی لیکن من یضللمعنی کے اعتبار سے جمع ہے اس لئے اولئک ہم الخاسرون بصیغۂ جمع فرمایا۔ چونکہ تمام ہدایات پانے والوں کا طریقہ ایک ہی ہے۔ (توحید نبوت اور قیامت کا اقرار اور ایمان بالقدر وغیرہ) اس لئے فہوی المہتدی فرمایا گویا اس بات پر تنبیہ کی کہ جتنے ہدایت پانے والے افراد ہیں وہ ایک شخص کی طرح ہیں اور چونکہ گمراہی کے راستہ جدا جدا متعدد ہیں اس لئے الخاسرون بصیغۂ جمع فرمایا۔ آیات میں صراحت ہے کہ ہدایت ہو یا گمراہی دونوں اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ کی ہدایت کرنے کا معنی ہے ہدایت یاب بنا دینا۔ خالی راہ ہدایت بنا دینا اور بیان کرنا نہیں ہے جس کو اللہ ہدایت کرتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ معتزلہ کے نزدیک ہدایت الٰہی کا معنی ہے بتادینا۔ بیان کردینا۔ مگر آیات کی صراحت اس کے خلاف ہے۔ فہو المہتدی کا لفظ اس امر کو بھی بتارہا ہے کہ ہدایت یاب ہوجانا ہی درحقیقت بہت بڑا کمال اور عظیم الشان نفع ہے کیونکہ اس سے آئندہ عظیم الشان نعمتوں کا حصول لازمی ہے پس آئندہ زندگی کی کامرانی اور کامیابی کا ذکر کرنے کے بجائے اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ جس کو اللہ ہدایت کرتا ہے وہی ہدایت یاب ہوتا ہے۔ مقام جابیہ میں حضرت عمر ؓ بن خطاب نے ایک روز خطبہ دیا اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا من یہدہ للّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لَہٗکوئی عیسائی یا یہودی یا مجوسی مذہبی عالم سامنے بیٹھا تھا اس نے آخری لفظ سن کر فارسی زبان میں کچھ کہا حضرت عمر ؓ نے مترجم سے پوچھا یہ کیا کہتا ہے مترجم نے کہا یہ کہہ رہا ہے کہ خدا کسی کو گمراہی نہیں کرتا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اے دشمن خدا تو جھوٹا ہے۔ اللہ ہی نے تجھے پیدا کیا اور تجھے گمراہ کردیا اور وہی انشاء اللہ تجھے دوزخ میں داخل کرے گا اگر ہمارا معاہدہ نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا۔ اس بیان کے بعد لوگ اٹھ گئے اور تقدیر کی بابت کسی کو اختلاف نہ رہا۔
Top