Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 42
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ١٘ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَا نُكَلِّفُ : ہم بوجھ نہیں ڈالتے نَفْسًا : کسی پر اِلَّا : مگر وُسْعَهَآ : اس کی وسعت اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ہم کسی شخص کے ذمہ اس کی قدرت سے زائد کام نہیں رکھتے، یہی لوگ تو جنت والے ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے،56 ۔
56 ۔ بندوں کی ہمت افزائی اور تسلی قلب کے لیے قرآن مجید کا ایک عام دستور سا ہے کہ اہل جہنم کی وعیدوں کے مقابل اہل جنت کی بشارتوں کا بھی ذکر کردیتا ہے۔ (آیت) ” لانکلف نفسا الا وسعھا “۔ یہاں ذکر جنت کے ضمن میں یہ جملہ معترضہ لا کر یہ بتا دیا کہ جنت تک رسائی کچھ دشوار نہیں۔ اس کا ذریعہ عمل صالح ہے اور عمل صالح انہی احکام کی تعمیل کا نام ہے جو ہر بندہ کو اس کی وسعت و طاقت کے اندر ہی دیئے جاتے ہیں۔ جنت کے نام سے کوئی یہ خیال کرکے نہ گھبرائے کہ وہاں تک رسائی کے لیے خدا معلوم کیسی کیسی دشوار منزلوں سے ہو کر گزرنا ہوگا۔ دوسری طرف کافروں کے حق میں بھی تنبیہ ہے کہ جنت جو ایسی آسانی سے حاصل ہوسکتی ہے اسے یہ اپنے ہاتھوں چھوڑے بیٹھے ہیں۔ وسع کے معنی خود ایسی چیز کے ہیں جو انسان کو آسانی اور معمولی کوشش سے حاصل ہوسکے، سخت وشدید کوشش کے لیے لفظ جہد کا آتا ہے وسع کا نہیں، معنی الوسع مایقدر الانسان علیہ فی حال السعۃ والسھولۃ لا فی حال الضیق والشدۃ (کبیر) واما الطاقۃ یسمی جھدا لا وسعا (کبیر)
Top