Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 62
اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَكُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
اُبَلِّغُكُمْ : میں پہنچاتا ہوں تمہیں رِسٰلٰتِ : پیغام (جمع) رَبِّيْ : اپنا رب وَاَنْصَحُ : اور نصیحت کرتا ہوں لَكُمْ : تمہیں وَاَعْلَمُ : اور جانتا ہوں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
میں تمہیں اپنے پروردگار کے پیامات پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،85 ۔
85 ۔ (چنانچہ میں جانتا ہوں کہ دعوت توحید سے انکار کا وبال تم پر ضرور پڑ کر رہے گا) (آیت) ” ابلغکم رسلت ربی “۔ پیغمبر خدا کا مظہر یا اوتار نہیں ہوتا۔ صرف مبلغ وداعی ہوتا ہے۔ (آیت) ” رسول من رب العلمین “ میں یہ بات ابھی پہلے بھی آچکی ہے۔ اور اب دوبارہ مزید تصریح وتاکید کے لیے ہے۔ مشرک قوموں کی سمجھ میں جس طرح توحید نہیں آتی، اسی طرح رسالت کا تصور بھی ان کے ذہن کی گرفت سے باہر ہی رہتا ہے۔ اور وہ ہمیشہ اوتار وغیرہ کے مشرکانہ تخیل کے پھیر میں پڑے رہتے ہیں۔ (آیت) ” انصح لکم “۔ شفقت، خیر خواہی تو گویا پیغمبر کے ضمیر ہی میں داخل ہوتی ہے۔ وہ امت اجابت تو خیر امت دعوت کے ساتھ بھی جو کچھ معاملہ کرتا ہے اس کی بنیاد اخلاق و شفقت ہی پر ہوتی ہے۔ جس میں خود غرضی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ النصح اخلاص النیۃ من شوائب الفساد فی المعاملۃ (قرطبی) (آیت) ” اعلم من اللہ “۔ پیغمبر کا یہ علم اس کا اپنا کسب کیا ہوا نہیں۔ اللہ ہی کی طرف سے عطا کیا ہوا ہوتا ہے۔
Top