Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 63
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
اَوَعَجِبْتُمْ : کیا تمہیں تعجب ہوا اَنْ : کہ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آئی ذِكْرٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب عَلٰي : پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْكُمْ : تم میں سے لِيُنْذِرَكُمْ : تاکہ وہ ڈرائے تمہیں وَلِتَتَّقُوْا : اور تاکہ تم پرہیزگار اختیار کرو وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
کیا تم اس پر حیرت کرتے ہو کہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد کے ذریعہ سے نصیحت پہنچی ہے تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم ڈرو عجب کیا جو تم پر رحم کیا جائے،86 ۔
86 ۔ (باوجود تمہارے پچھلے انبار معاصی کے) (آیت) ” او عجبتم۔۔۔ منکم “۔ مشرک جاہلی قوموں کی الٹی سمجھ میں اوتار کا عقیدہ تو آجاتا ہے۔ یعنی یہ کہ خالق کائنات خود کسی انسان یا کسی دوسری مخلوق کے قالب میں جلوہ گر ہو کر آگیا۔ لیکن یہ کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کسی اعلی ظرف و کمالات والے انسان کے ذریعہ سے اپنے احکام وہدایات دنیا کو بھیج سکتا ہے۔ (آیت) ” علی رجل منکم “۔ منکم سے مراد من جنسکم اور علی رجل سے مراد منزل علی رجل ہے۔ المعنی ان جاء کم ذکر من ربکم منزل علی رجل منکم (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اپنے ہم عصراولیاء سے محض ان کی معاصرت کی بنا پر نفرت و حقارت کا برتاؤ جاہلوں کا آج تک شیوہ چلا آرہا ہے۔ (آیت) ” لینذرکم ولتتقوا “۔ ل دونوں میں تعلیلیہ ہے اور پورے فقرہ میں سببیت کی ایک خاصترتیب پائی جاتی ہے۔ یعنی پیغمبر کا آنا تو انذار کے لیے ہوتا ہے اور یہی انذار سبب ہوجاتا ہے، تقوی کا اور تقوی سبب بن جاتا ہے جلب رحمت کا
Top