Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 44
وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُكُمْ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب يُرِيْكُمُوْهُمْ : وہ تمہیں دکھلائے اِذِ : جب۔ تو الْتَقَيْتُمْ : تم آمنے سامنے ہوئے فِيْٓ : میں اَعْيُنِكُمْ : تمہاری آنکھ قَلِيْلًا : تھوڑا وَّ يُقَلِّلُكُمْ : اور تھوڑے دکھلائے تم فِيْٓ : میں اَعْيُنِهِمْ : ان کی آنکھیں لِيَقْضِيَ : تاکہ پورا کردے اللّٰهُ : اللہ اَمْرًا : کام كَانَ : تھا مَفْعُوْلًا : ہوکر رہنے والا وَ : اور اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ تُرْجَعُ : لوٹنا (بازگشت) الْاُمُوْرُ : کام (جمع)
اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب کہ اس نے ان لوگوں کو تمہاری نظروں میں کم کرکے دکھلایا اور ان کی نگاہ میں تمہیں کم کرکے تاکہ اللہ اس امر کو پورا کردے جو ہو کر رہنا تھا،69 ۔ اور اللہ ہی کی طرف سارے امر رجوع ہوں گے،70 ۔
69 ۔ اب ذکر خواب کا نہیں عالم بیداری کا ہورہا ہے۔ اور بیان اس کا ہورہا ہے کہ یہ دونوں مشاہدات وواقعات عین حکمت پر مبنی تھے۔ (آیت) ” لیقضی اللہ امرا کان مفعولا “۔ مراد دو چیزیں ہیں، ایک تو کافروں کے لشکروں سے مذبھیڑ کرانا، دوسرے مشرکین کی ہلاکت وذلت اور اسلام کی فتح وسربلندی۔ کرر ھذا لان المعنی فی الاول من اللقاء وفی الثانی من قتل المشرکین و اعزاز الدین وھو اتمام النعمۃ علی المسلمین (قرطبی) مفصل حاشیہ سورة آل عمران، پارہ 4 میں گزر چکے۔ 70 ۔ (اور اسی کا فیصلہ ہر گمراہ اور ہر راہ یاب کے حق میں ناطق ہوگا) آیت میں اشارہ اس طرف بھی آگیا کہ دنیا میں جو کچھ بھی پیش آرہا ہے یہ بجائے خود مقصود نہیں بلکہ مقصود تمام تر وہ اجر ہے جو ان سے آخرت میں حاصل ہوگا الغرض منہ التنبیہ علی ان احوال الدنیا غیر مقصود الذوا تھا وانما المراد منھا مایصلح ان یکون زاد الیوم المعاد (کبیر)
Top