Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
جیسا کہ آپ کے،9 ۔ پروردگار نے آپ کو حکمت کے سات آپ کے گھر سے باہر نکالا،10 ۔ اور مومنوں کا ایک گروہ (اس کو) گراں سمجھ رہا تھا،1 1 ۔
9 ۔ یعنی مال غنیمت کا یہ خدائی طرز تقسیم گو بعض طبائع کو اپنے خلاف مرضی ہونے کی بنا پر ناگوار گزرے لیکن حقیقۃ یہ حکم ایسا ہی پر مصلحت ہے جیسا وہ واقعہ جس کا ذکر اب شروع ہورہا ہے۔ کما اس لفظ کی ترکیب قرآن مجید کی مشکل ترین ترکیبات نحوی میں سے ہے اضطرب المفسرون فی قولہ کما الخ (بحر) چناچہ صاحب بحر نے 15 مختلف اقوال نقل کئے ہیں۔ ان میں ایک دلنشین قول زجاج لغوی کا ہے۔ الانفال ثابتۃ للہ کما اخرجک ربک (محر) زمخشری جیسے امام ادب نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور تقدیر کلام یوں رکھی ہے۔ الانفال استقرت للہ والرسول وثبتت مع کر اھیتھم تباتا مثل ثبات اخراج ربک ایاک من بیتک وھم کارھون (کشاف) صاحب بحر نے لکھا ہے کہ میں اسی غوروفکر میں ایک روز سوگیا تو میں نے خواب میں بھی اسی ترکیب سے متعلق دیکھا، اس خواب کے نتیجہ کے طور پر انہوں نے کما کے معنی میں محض تشبیہ ہی کو نہیں لیا بلکہ تعلیل کو بھی شامل کیا ہے۔ الکاف لیست لمحض التشبیہ بل فیھا معنی التعلیل (بحر) لیکن امام رازی (رح) نے جو تقدیر کلام اختیار اور پسند کی ہے وہ اس سے بہتر ہے۔ کان التقدیر انھم رضوا بھذا الحکم فی الانفال وان کانوا کارھین لہ کما اخرجک ربک من بیتک بالحق الی القتال وان کانوا کارھین لہ (کبیر) 10 ۔ (معرکہ بدر کے لئے) رسول اللہ ﷺ کو مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کیے ہوئے یعنی وطن کو چھوڑ کر بہ حکم الہی جلاوطن ہوئے دوسرا سال ہوچکا تھا مگر مکہ کے مشرکوں کی ایذا رسانیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری تھا کہ اتنے میں خبر ملی کہ ان موذی دشمنوں کا قافلہ پچاس ہزار اشرفیوں کے مال تجارت سے لداپھندا ایک مشہور مکی لیڈر ابوسفیان کی قیادت و رہنمائی میں شام سے مکہ کو واپس ہورہا ہے اور مدینہ کے قریب سے ہو کر گزرے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے رفیق اور صحابی برسوں سے ان کے مظالم کے ہدف بنے ہوئے تھے۔ قدرۃ خیال گزرا کہ موقع اچھا ہے، دشمن کی اس شہ رگ کو کاٹ دینا چاہیے (مکہ کوئی زراعتی ملک تو تھا نہیں باشندوں کی آمدنی کا دارومدار اسی تجارتی قافلہ پر تھا) آپ ﷺ تین سو تیرہ رفیقوں کے ہمراہ روازنہ ہوگئے، نہ یہ کوئی باضابطہ فوج تھی اور نہ فوجی سامان وسلاح سے آراتہ اس وقت آپ ﷺ نے اپنی مثال تنظیمی قابلیت کی بنا پر اتنے ہی لوگوں کو فوجی دستوں کی صورت میں مرتب کرلیا تھا۔ ساتھ میں کل ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے، ادھر یہ ہورہا تھا، ادھر یہ خبر قافلے والوں کو بھی لگ گئی، انہوں نے فورا اپنے آدمی فوجی کمک کیلئے مکہ کو دوڑائے اور خود بالابالا راستہ کترا کر سمندر کے کنارہ کنارہ نکل آئے جمہوریہ مکہ کا رئیس ابوجہل اپنی ماتحتی میں چھوٹے چھوٹے روساء اور عام مسلح سپاہی 950 کی تعداد میں لے کر جوش و خروش کے ساتھ مدینہ والوں پر جھپٹا، اور بدر کی منزل پر آکر دم لیا، جو مدینہ سے صرف 20 میل کے فاصلہ پر اور اس کے جنوب ومغرب میں واقع ہے۔ یہ واقعہ رمضان 2 ھ ؁ مارچ 624 ء ؁ کا ہے۔ ادھر رسول اللہ ﷺ پر وحی آئی کہ قافلہ یا لشکر دونوں میں سے ایک پر آپ کی فتح یقینی ہے۔ لیکن صحابہ تو بہرحال صاحب وحی نہیں تھے۔ انہوں نے تو یہ دیکھا کہ اب مقابلہ آپڑا ہے تجارتی قافلہ سے یا فوج کے سامان رسد سے نہیں، بلکہ خود لشکر جرار سے اور لشکر بھی کیسا، اپنے سے تعداد اور سامان دونوں میں کئی گنا زاید ! قدرۃ ایک گروہ کو اب تذبذب، تامل، تردد پیدا ہوا، رسول اللہ ﷺ کو اس کم ہمتی پر تأسف ہوا لیکن خود صحابہ ہی کے گروہ میں سے، مہاجرین میں، ابوبکر وعمر ؓ اور انصار میں سعد بن معاذ ؓ رئیس اوس نے جوش اطاعت سے لبریز تقریریں کیں، جب آپ بدر کی طرف روانہ ہوئے، آیت بالا میں انہیں واقعات کی طرف اشارات ہیں۔ معرکہ کے آئینی اور قانونی پہلو پر زمانہ حال کے ایک ماہر فن قانون بین الممالک (انٹرنیشنل لا) کے خیالات سننے کے قابل ہیں۔ :” ایک طرف تو قریش کا مسلمانوں پر مظالم توڑ کر انہیں جلاوطنی پر مجبور کرنا، جلاوطنی پر ان کی جائدادوں کا ضبط کرلینا، اور ان کے نئے مسکن (حبشہ اور پھر مدینہ) میں وہاں کے حکمرانوں اور بااثر لوگوں کو ان تارکین وطن کو پناہ نہ دینے کی ترغیب دینا، دوسری طرف ان ناانصافیوں کا بدلہ لینے کے لیے مدینہ کے مسلمانوں کا قریش پر معاشی دباؤ ڈالنا اور بزور قریشی قافلوں کی آمد ورفت کو اپنے زیر اثر علاقہ میں روک دینا، یہی بدر کی لڑائی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ قریشی قافلوں کو لوٹ لینا ڈاکہ اس وقت سمجھا جائے جب یہ بےقصور ہوں اور لوٹنے والے، حکومت نہیں بلکہ خانگی افراد ہوں، ورنہ دو سلطنتوں میں کشیدگی پر نہ صرف جان بلکہ مال وآبرو کے خلاف بھی ہر فریق دوسرے فریق کو نقصان پہنچانے کا پورا حق رکھتا ہے “۔ (ڈاکٹر حمید اللہ کی ’ عہد نبوی کے میدان جنگ “ صفحہ 17) (آیت) ” بالحق۔ یعنی مقصد صحیح و صالح و پر حکمت کے ساتھ، یوں ہی اور بلاوجہ نہیں۔ اے اخراجا متلبسا بالحکمۃ والصواب (کبیر) (آیت) من بیتک “۔ یعنی شہر مدینہ سے جو اب آپ ﷺ کا وطن اختیاری تھا۔ یرید بیتہ بالمدینۃ او المدینۃ نفسھا لانھا موضع ھجرتہ وسکناہ (کبیر) 1 1 ۔ کہاں 3 13 اور وہ بھی بےسروسامان، کہاں 950 اور پھر ہر طرح مسلح وباساز و سامان۔ خوف واندیشہ بالکل قدرتی تھا اور یہ طبعی کیفیت مورد عتاب نہیں، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی متقی و صالح شخص سانپ کا یا شیر کا اچانک سامنا ہوجانے پر ڈر جائے پھر فریقا سے یہ امر بھی صاف ہوگیا کہ یہ خوف وتردد بھی سب کو نہ تھا۔ وھذا فیما لایدخل تحت القدرۃ والاختیار فلا یرد انہ لا یلیق بمنصب الصحابۃ (روح) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ نفع کبھی بہ صورت ضرر ہوتا ہے، اور عارفین کو اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔
Top