Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 100
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
اور (جو) مہاجرین وانصار میں سے سابق ومقدم (ہیں) ،182۔ اور جتنے لوگوں نے نیک کرداری میں ان کی پیروی کی،183۔ اللہ ان (سب) سے راضی ہوا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوئے،184۔ اور اس نے ان کیلئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں کہ ان کے نیچے ندیاں بہہ رہی ہوں گی ان میں یہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے،185۔
182۔ (ساری امت سے، ایمان لانے کے لحاظ سے اور وہ سارے ہی کے سارے مہاجروانصار ہیں) (آیت) ” السبقون۔ اور الاولون “۔ دونوں میں ال استغراق وجنس کا ہے۔ اور من تبعیض کا نہیں، تبیین کیلئے ہے، اس لئے آیت میں جو مدح آئی ہے، اس کے مصداق سارے ہی صحابہ کرام ؓ ہیں نہ کہ ان کا کوئی مخصوص طبقہ۔ (آیت) ” المھجرین “۔ مہاجر وہ مسلمان کہلائے جو اپنا وطن مکہ چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و متابعت کے لئے ہجرت کرکے مدینہ آئے (آیت) ” الانصار “۔ انصار وہ مسلمان اہل مدینہ کہلائے جنہوں نے مہاجرین مکہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور رسول اللہ ﷺ اور دین اسلام کی ہر طرح خدمت ونصرت کی۔ 183۔ (اور اس امت کے سارے طبقات قیامت تک کے لئے آگئے) (آیت) ” اتبعوھم باحسان “۔ باحسان کی قید بہت قابل غور ہے۔ مہاجرین ہوں یا انصار، صحابہ کی کوئی سی بھی قسم ہو، بہرحال یہ حضرات معصوم نہ تھے۔ عصمت صرف خاصہ نبوت ہے۔ اس لئے حکم ان حضرات کے اتباع مطلق کا نہیں، بلکہ قید یہ لگی ہوئی ہے کہ ” نیک کرداری میں ان کا اتباع کیا جائے “ باحسان اے ما یتبعون فیہ من افعالھم وقوالھم لا فی ماصدر عنھم من الھفوات والزلامات اذلم یکونوا معصومین (قرطبی) وھو ان یقتدوا بھم فی الاعمال الحسنۃ ولا یقتدوا بھم فی غیر ذلک (کبیر۔ عن محمد بن کعب القرظی) محققین اہل سنت نے یہیں سے یہ نکالا ہے کہ اصحاب نبی ﷺ مقتدایان امت ہیں اور تمام صالحین ان کے تابع۔ انہیں محققین نے ایک نکتہ اور بھی پیدا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باہمی مشاجرات صحابہ کی جو روایتیں ہم تک پہنچی ہیں۔ ان سے ہمارے لئے یہ روا نہیں ہوجاتا کہ ایک کے اتباع کے زور میں ہم دوسرے کی عیب جوئی کرنے لگیں، پس امیر المومنین حضرت علی ؓ تو خیر اجل اصحاب نبی اور خلفائے راشدین میں ہیں۔ امیر معاویہ جو یہ مرتبہ نہیں رکھتے وہ بھی بہرحال صحابی ہیں، ان تک کے حق میں زبان طعن کھولنا درست نہیں۔ (آیت) ” والذین اتبعوھم “۔ فقہاء نے اس سے یہ بھی نکالا ہے کہ سابق کو متاخر پر فضیلت ہے اس لئے کہ پہلا شخص نیکی کا داعی ہوتا ہے اور دوسرا اس کا تابع ومقلد، اور سابق کو دہرا اجر ملتا ہے۔ فیہ الدلالۃ علی تفضیل السابق الی الخیر علی التالی لانہ داع الیہ بسبقہ والتالی تابع لہ فھو امام لہ ولہ مثل اجرہ (جصاص) 184۔ (اللہ کی طرف سے رضا تو یہ کہ اس نے ان سب کا ایمان مقبول فرمایا اور سب کو صلہ وجزا سے سرفراز کیا اور بندوں کی طرف سے رضا یہ کہ انہوں نے دل سے طاعت و اطاعت اختیار کی) رضا العبد عن اللہ ان لا یکرہ ما یجری بہ قضاۂ ورضا اللہ عن العبد ھو ان یراہ مؤتمرا لامرہ ومنتھیا عن نھیہ (راغب) بہرحال آیت نے مہاجرین سابقین اور ان کے تابعین سب کی مدح صاف صاٖ کردی بشرطیکہ اتباع نیک کرداری میں پوراپورا ہو بھی۔ بین ان منھم السابقین الی الھجرۃ وان منھم التابعین واثنی علیھم (قرطبی) دلت علی ان من اتبعھم انما یستحقون الرضوان والثواب بشرط کو نھم متبعین لھم باحسان (کبیر) (آیت) ” رضواعنہ “۔ کے تحت میں عارفین ومشائخ طریق نے بندہ کی رضا مندی کے تین طبقہ قرار دیئے ہیں :۔ (1) دل مانے یا نہ مامانے مگر اتباع احکام لازم ومقدم جانے، یہ مبتدی صاحب تقوی کا مقام ہے۔ (2) تقدیر الہی اور احکام حضرت حق ایسے بامزہ ومحبوب ہوجائیں کہ نفسانی خواہشوں کی طرف التفات ہی نہ ہو، یہ متوسطین کا طبقہ ہے جن کا مقام (آیت) ” لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون “۔ ہوتا ہے۔ (3) کمال توحید وعرفان میں ایسا مستغرق ہو کہ یہ تمام کائنات ذاتی وصفاتی عین فعل وامر حضرت حق ہی دکھائی دے اسباب کا حجاب اور وسائط ووسائل کا دخل ہی نہ رہ جائے، یہ مقام کاملین کا ہوتا ہے۔ امام غزالی (رح) کا قول ہے مقام رضا سے فائق و افضل کوئی مقام نہیں۔ 185۔ خوب خیال رہے کہ قرآن مجید نے بار بار اور صریح الفاظ میں، تکرار اور تصریح دونون کے ساتھ اصلی و حقیقی کامیابی اخروی ہی کامیابی کو قرار دیا ہے نہ کہ دنیا کے کسی انعام کو۔۔۔ مسلمان کا منتہائے مقصود فلاح آخرت ہے نہ کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا اعزاز یا مرتبہ۔
Top