Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 114
وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُ١ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ١ؕ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھا اسْتِغْفَارُ : بخشش چاہنا اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم لِاَبِيْهِ اِلَّا : اپنے باپ کے لئے مگر عَنْ مَّوْعِدَةٍ : ایک وعدہ کے سبب وَّعَدَھَآ : جو اس نے وعدہ کیا اِيَّاهُ : اس سے فَلَمَّا : پھر جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوگیا لَهٗٓ : اس پر اَنَّهٗ : کہ وہ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ : اللہ کا دشمن تَبَرَّاَ : وہ بیزار ہوگیا مِنْهُ : اس سے اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم لَاَوَّاهٌ : نرم دل حَلِيْمٌ : بردبار
اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے حق میں دعائے مغفرت کرنا تو محض وعدہ کے سبب تھا جو انہوں نے اس سے کرلیا تھا،210۔ پھر جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بےتعلق ہوگئے،211۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ہی نزم دل (اور) بردبار تھے،212۔
210۔ (اس کی حالت حیات میں، جبکہ آپ کو یہ علم ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ اس کی موت کفر پر ہوگی اور اس لئے وہ مثال اب کسی کے لئے حجت وسند نہیں) اس وعدہ کا ذکر سورة مریم کی اس آیت میں ہے۔ ساستغفرلک ربی انہ کان بی حفیا (آیت) ” ماکان “۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال دو مختلف مفہوموں کے لئے ہوا ہے کہیں تو تکوینی حیثیت سے کسی واقعہ کی نفی مراد ہوتی ہے مثلا اس آیت میں ماکان لنفس ان تموت الا باذن اللہ “۔ اور کہیں تشریعی طور پر نہی یا ممانعت مثلا اسی آیت میں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت اس امر کی دلیل ہے کہ شیخ جس فعل سے مرید کو منع کرے اور خود اس کو کسی عارض سے کرنا پڑجائے تو چاہئے کہ مرید کے سامنے اسے کھول کر بیان کردے تاکہ وہ اس کی تقلید میں نہ مبتلا ہوجائے۔ 211۔ (اور اس کے حق میں دعائے مغفرت چھوڑ دی) جب موت کفر پر واقع ہوجائے جب تو مغفرت کا احتمال ہی نہیں، لیکن زندگی بھر تو یہ امید قوی یا ضعیف بہر حال لگی رہتی ہے کہ شاید اب اسے توفیق ہدایت ہوجائے اور مغفرت ہدایت سے لازم آجاتی ہے چناچہ زندہ کافر والدین کے حق میں دعائے مغفرت مطلق ممنوع نہیں۔ وقد قال کثیر من العلماء لا باس ان یدعوا الرجل لابویہ الکافرین ویستغفر لھما ما داما حیین (قرطبی) بلکہ حضرات صحابہ کا عمل ہی یہی تھا۔ قال ابن عباس کانوا یستغفرون لموتاھم فنزلت فافسکوا عن الاستغفارولم ینھھم ان یستغفروا للاحیاء حتی یموتوا (قرطبی) 212۔ (چنانچہ باوجود اس کے کہ باپ نے کیسی کیسی سختیاں کیں آپ برابر حلم ہی سے کام لیتے گئے، یہاں تک کہ جوش شفقت سے طلب مغفرت کا وعدہ بھی کرلیا) مفسر تھانوی (رح) نے یہ نکتہ لکھا ہے کہ کسی کی زندگی میں اس کے لئے طلب مغفرت کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے حق میں طلب ہدایت کی جائے۔ اور یہ جو حدیث بخاری میں آیا ہے کہ آخرت میں حضرت ابراھیم (علیہ السلام) آزر کو دوزخ میں دیکھ کر دعا کریں گے کہ مجھے حسب وعدہ رسوائی سے بچایا جائے اور اس پر آزر کی شکل انسان سے جانور میں تبدیل ہوجائے گی کہ کوئی دیکھ کر پہچان ہی نہ سکے، اس پر بہترین تقریر مفسر تھانوی (رح) کی بیان القرآن میں موجود ہے۔ اسی کو ملاحظہ فرما لیا جائے۔ (آیت) ” عدو للہ “۔ یعنی اللہ کے دین کا دشمن، اللہ کے قانون کا باغی، ورنہ براہ راست اللہ سے دشمنی کوئی بندہ کر ہی کیسے سکتا ہے۔ (آیت) ” اواہ “۔ کہتے ہیں خشیت الہی سے مغلوب کو۔ یعبر بالاواہ عمن یظھر خشیۃ اللہ (راغب) حدیث نبوی ﷺ میں اس کی شرح الخاشع المتضرع سے آئی ہے۔ رواہ عبداللہ بن شداد بن الھاد عن النبی ﷺ (قرطبی)
Top