Al-Qurtubi - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں۔ تو ان کے لئے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں۔
آیت نمبر : 113۔ اس آیت میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) امام مسلم (رح) نے حضرت سعید بن مسیب ؓ سے اور انہوں نے اپنے باب روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : جب ابو طالب قریب المرگ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے (2) (المحرر الوجیز، جلد 3، صفحہ 90۔ 89 دارالکتب العلمیہ) اور آپ نے ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ ابن مغیرہ کو ان کے پاس پایا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے چچا ! کہو ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس بارے تیری شہادت پیش کروں گا “۔ تو ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : اے ابو طالب ! کیا تو عبدالمطلب کے دین سے اعراض کرے گا ؟ رسول اللہ ﷺ مسلسل وہ کلمہ ان پر پیش کرتے رہے اور اس قول کا ان کے لیے اعادہ کرتے رہے یہاں تک کہ آخر میں ابو طالب نے ان کلام کرتے ہوئے کہا : وہ عبدالمطلب کے دین پر ہے۔ ” لا الہ الا اللہ “۔ کہنے سے انکار کردیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قسم بخدا ! میں تمہارے لیے ضرور مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے تم سے منع نہ کیا گیا “ تب اللہ تعالیٰ نازل فرمائی : (آیت) ” ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی من بعد ما تبین لھم انھم اصحب الجحیم “۔ اور اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کو فرمایا : (آیت) ” انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشآء، وھو اعلم بالمھتدین “۔ (القصص) (1) (صحیح مسلم، کتاب الا ایمان، جلد 1، صفحہ 40) (بےشک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپ پسند کریں، البتہ اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت یافتہ لوگوں کو) پس اس بنا پر یہ آیت حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے اپنے چچا کے لیے استغفار کرنے کے لیے ناسخ ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے ان کی موت کے بعد ان کے لیے مغفرت طلب کی جیسا کہ صحیح کے علاوہ دیگر کتب میں روایت موجود ہے۔ اور حسین بن فضل نے کہا ہے : یہ انتہائی بعید ہے، کیونکہ یہ سورت قرآن کریم میں سے آخر میں نازل ہونے والی (سورتوں) میں سے ہے اور ابوطالب نے عنفوان اسلام کے وقت وصال فرمایا اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ ابھی مکہ مکرمہ میں تھے۔ مسئلہ نمبر : (2) یہ آیت کفار کے ساتھ دوستی ختم کرنے کو متضمن ہے چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو اجازت نہیں دی کہ وہ مشرکوں کے لیے استغفار کریں، پس مشرک کے لیے مغفرت طلب کرنا ان امور میں سے ہے جو جائز نہیں۔ پھر اگر کہا جائے : تحقیق یہ بات صحیح ہے کہ غزوہ احد کے دن جب کفار نیحضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے سام نے والے دانت شہید کردیئے اور آپ کا چہرہ مقدس زخمی کردیا تو آپ ﷺ نے یہ فرمایا : ” اللہم اغفر لقومی فانھم لا یعلمون “۔ (2) (صحیح مسلم، غزوہ احد، جلد 2، صفحہ 108) (اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے) تو یہ اس کلمہ کے ساتھ جمع کیسے ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول معظم ﷺ اور مومنوں کو مشرکین کے لیے مغفرت طلب کرنے سے منع فرما دیا ہے ؟ تو یہ کہا جائے گا : بیشک حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے یہ قول سابقہ انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی نبی سے برسبیل حکایت بیان ہوا ہے۔ اور اس پر دلیل وہ آیت ہے جسے مسلم (رح) نے حضرت عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : گویا میں حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ سابقہ انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی نبی (علیہ السلام) کے بارے بیان فرما رہے ہیں کہ اس کی قوم نے اسے مارا اور وہ اپنے چہرے سے خون صاف کررہے تھے اور کہہ رہے تھے : رب اغفر لقومی فانھم لا یعلمون “۔ (3) (ایضا) (اے میرے پروردگار ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے) اور بخاری میں ہے کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اس کے بارے خبر دینے لگے کہ اس نے یہ کہا : رب اغفر لقومی فانھم لا یعلمون “۔ (4) (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، جلد 1، صفحہ 195) (اے میرے پروردگار ! میری قوم کو بخش دے، کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے) میں مفسر کہتا ہوں : یہ روایت اس بارے میں صریح ہے کہ یہ آپ سے قبل کسی اور نبی (علیہ السلام) کی جانب سے بطور حکایت ہے، نہ کہ آپ ﷺ نے اسے ابتداء اپنی طرف سے ارشاد فرمایا جیسا کہ بعض کا گمان ہے۔ واللہ اعلم۔ اور یہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ جن کی آپ نے حکایت بیان کی وہ حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں، جیسا کہ اس کا بیان سورت ہود میں آئے گا۔ ان شاء اللہ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت میں استغفار سے مراد نماز ہے، اور بعض نے کہا ہے : میں نہیں ہوں کہ میں اہل قبلہ میں سے کسی پر نماز (جنازہ) پڑھنا چھوڑ دوں اگرچہ وہ حبشہ کی رہنے والی زنا سے حاملہ ہو، کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ کو نہیں سنا کہ اس نے مشرکین کے سوا کسی کی نماز سے روکا ہو۔ کیونکہ اس نے مشرکین کے بارے میں فرمایا ہے : (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “۔ الآیہ (1) (المحرر الوجیز، جلد 3، صفحہ 90) حضرت عطا بن ابی رباح ؓ نے کہا ہے : یہ آیت مشرکوں پر نماز جنازہ پڑھنے سے روکنے کے بارے میں ہے۔ اور یہاں استغفار سے مراد صلوۃ (نماز جنازہ) ہی ہوگا۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ زندوں کے لیے استغفار کرنا جائز ہے کیونکہ ان کے ایمان کی امید اور توقع ہو سکتی ہے اور اچھے اور خوبصورت قول کے ساتھ ان کی تالیف قلوب کرنا اور دین کی طرف انہیں راغب کرنا ممکن ہوتا ہے، اور بہت سے علماء نے کہا ہے کہ آدمی اپنے کافر والدین کے لیے دعا مانگے اور ان کے لیے بخشش طلب کرے جب تک وہ زندہ ہوں، اور رہا وہ جو فوت ہوگیا تو اس سے امید منقطع ہوگئی لہذا اس کے لیے دعا نہیں کی جائے گی حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وہ اپنے مردوں کے لیے مغفرت طلب کرتے تھے پھر یہ آیت نازل ہوئی تو وہ استغفار کرنے سے رک گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں زندوں کے لیے مغفرت طلب کرنے سے منع نہیں کیا یہاں تک کہ مرجائیں (2) (تفسیر طبری، سورة توبہ، جلد 1، صفحہ 52) (یعنی مرنے کے بعد ان کے لیے مغفرت کی دعا نہیں ہے) مسئلہ نمبر : (3) اہل معانی نے کہا ہے : ماکان قرآن کریم میں دو صورتوں میں آتا ہے، ایک نفی کے معنی میں جیسے ارشاد گرامی ہے : (آیت) ” ما کان لکم ان تنبتوا شجرھا “۔ (النمل : 60) (تمہاری طاقت نہ تھی کہ تم اگا سکتے ان کے درخت) اور (آیت) ” وما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ “۔ (آل عمران : 145) (اور نہیں ممکن کہ کوئی شخص مرے بغیر اللہ کی اجازت کے) اور دوسرا نہی کے معنی میں آتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما کان لکم ان تؤذوا رسول اللہ “۔ (الاحزاب : 53) (اور تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ تم اذیت پہنچاؤ اللہ کے رسول کو) اور (آیت) ” ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “۔ الآیہ (درست نہیں ہے نبی کے لیے اور نہ ایمان والوں کے لیے کہ مغفرت طلب کریں مشرکوں کے واسطے)
Top