یحسب ان مالہ اخلدہ . وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال دنیا میں اس کو ہمیشہ رکھے گا۔ وہ دولت مند ہونے کی
وجہ سے کبھی نہیں مرے گا۔ گویا اس کا یہ خیال ہے کہ نادار بھوک سے مرجائے گا اور مالدار کبھی نہیں مرے گا۔ اس کلام کا حقیقی مفہوم مراد نہیں ہے کیونکہ کسی مالدار کا بھی یہ خیال نہیں ہوتا کہ وہ کبھی نہیں مرے گا بلکہ بطور کنایہ اس شخص کی مال سے محبت طولانی امید اور موت سے غافل رہنے کا اظہار کیا گیا ہے ‘ یا یہ کلام بطور تعریض ہے کہ حقیقت میں دوامی زندگی عطا کرنے والا تو ایمان اور عمل صالح ہے ‘ مال سے دوامی زندگی حاصل نہیں ہوگی۔
حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چوکور لکیر کھینچی اور مربع خط کے درمیان باہر کو نکلتی ہوئی ایک لکیر اور کھینچی اور اس وسطی لکیر کی جانب دونوں طرف سے آتی ہوئی چھوٹی چھوٹی لکیریں متعدد بنا دیں اور فرمایا : یہ (وسطی لکیر) انسان ہے اور باہر کو نکلا ہوا حصہ انسان کی آرزو ہے اور یہ چھوٹی لکیریں انسانی اغراض ہیں۔ اب اگر ایک (طرف والی) لکیر سے بچ جاتا ہے تو دوسری طرف والی لکیر اس کو نوچتی ہے اور اس سے بچ جاتا ہے تو یہ نوچتی ہے۔
حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چند خطوط کھینچے اور فرمایا : یہ آرزو ہے اور یہ انسان کی موت ہے۔ آدمی اسی حالت میں ہوتا ہے کہ اچانک قریب والا خط (یعنی خط موت) اس پر آ پہنچتا ہے۔ (رواہ البخاری)