Tafseer-e-Mazhari - Hud : 97
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَاتَّبَعُوْۤا اَمْرَ فِرْعَوْنَ١ۚ وَ مَاۤ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ
اِلٰي فِرْعَوْنَ : فرعون کی طرف وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَاتَّبَعُوْٓا : تو انہوں نے پیروی کی اَمْرَ فِرْعَوْنَ : فرعون کا حکم وَمَآ : اور نہ اَمْرُ فِرْعَوْنَ : فرعون کا حکم بِرَشِيْدٍ : درست
(یعنی) فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف۔ تو وہ فرعون ہی کے حکم پر چلے۔ اور فرعون کا حکم درست نہیں تھا
الی فرعون وملاۂ : فرعون کے اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا۔ آیات سے مراد ہیں : معجزات۔ توریت کی آیات مراد نہیں ہیں کیونکہ توریت کا نزول تو فرعون کے ڈوبنے کے بعد ہوا تھا۔ سُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ : کھلا ہوا غلبہ۔ ایک طرف تنہا حضرت موسیٰ تھے ‘ دوسری طرف فرعون اور اس کا لاؤ لشکر تھا جو سب کے سب حضرت موسیٰ کے قتل کے درپے تھے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ حضرت موسیٰ کو اللہ نے کھلا ہوا غلبہ عنایت فرمایا۔ یا سُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ سے مراد صرف عصا کا معجزہ ہے۔ یہ معجزہ سب سے زیادہ واضح اور غالب تھا۔ یا آیات اور سلطان سے مراد ایک ہی ہے۔ آیات و معجزات حضرت موسیٰ کی نبوت کی کھلی نشانیاں بھی تھے اور سبب غلبہ بھی۔ مبین لازم بھی ہے اور متعدی بھی ‘ اس لئے اس کا ترجمہ روشن و واضح بھی ہے اور روشنی پیدا کرنے والا ‘ واضح کردینے والا بھی ہے۔ آیۃ کا مفہوم سلطان کے مفہوم سے عام ہے ‘ آیۃ نشانی (علامت) کو بھی کہتے ہیں اور دلیل قطعی کو بھی اور سلطان صرف دلیل قطعی کو۔ فاتبعوا امر فرعون وما امر فرعون برشید سو وہ لوگ بھی فرعون ہی کی رائے پر چلتے رہے اور فرعون کی رائے کچھ صحیح نہیں تھی۔ یعنی کفر ‘ سرکشی اور حد سے بڑھی ہوئی گمراہی میں فرعونیوں نے فرعون کی پیروی کی اور فرعو کا فکریہ و عملیہ محض گمراہی اور کجروی تھا۔ نام کو بھی اس میں صلاح و رشد نہ تھا۔ ہر پسندیدہ ‘ قابل ستائش امر کو رشد اور ہر برے امر کو غَیّ کہا جاتا ہے۔ آیت میں فرعون کے گروہ کی جہالت و حماقت کا اظہار ہے کہ فرعون الوہیت کا مدعی تھا باوجودیکہ اپنے مصاحبین کی طرح معمولی انسان تھا ‘ علی الاعلان کفر و شرک اور ظلم کرتا تھا اور حضرت موسیٰ ہادئ برحق تھے۔ آپ کا قول مبنی برحق تھا ‘ عقل و نقل کی شہادت اور معجزات کی تائید آپ کے قول کو ثابت کر رہی تھی۔ پھر بھی فرعون کے ساتھی ایسے کو دن تھے کہ حضرت موسیٰ جیسے ہادئ برحق کے اتباع سے روگرداں اور فرعون جیسے باطل پرست کے پیرو تھے۔
Top