Urwatul-Wusqaa - Hud : 97
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَاتَّبَعُوْۤا اَمْرَ فِرْعَوْنَ١ۚ وَ مَاۤ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ
اِلٰي فِرْعَوْنَ : فرعون کی طرف وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَاتَّبَعُوْٓا : تو انہوں نے پیروی کی اَمْرَ فِرْعَوْنَ : فرعون کا حکم وَمَآ : اور نہ اَمْرُ فِرْعَوْنَ : فرعون کا حکم بِرَشِيْدٍ : درست
فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف مگر وہ فرعون کی بات پر چلے اور فرعون کی بات راست بازی کی بات نہ تھی
موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ۔ 122 موسیٰ (علیہ السلام) کی پوری سرگزشت سورة البقرہ میں ذکر کردی گئی اس لئے تفصیل کے لئے عروۃ الوثقی جلد اول کا وہ مقام مطلاعہ کرنا چاہئے جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے واقع کی تفصیل ہے۔ ہاں ! اس جگہ اتنا عرض کردینا کافی ہوگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر مصر کی طرف آ رہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ آگ نظر آئی۔ آپ نے اپنے لوگوں کو کہا کہ تم یہاں ٹھہرو میں وہاں سے آگ لائوں تاکہ تم تاپ سکو جس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجائے گی کہ یہ واقعہ رات کے وقت کا اور سردی کے موسم کا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) آگ والے مقام کے قریب پہنچ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرلیا اور رسول بنا کر فرعون کی طرف جانے کی ہدایت فرمائی۔ اس لئے کسی کہنے والے نے کہا ۔ خدا کے فضل کا موسیٰ سے پوچھتے احوال ٭ کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وہ جو آگ آپ نے دیکھی تھی فی الحقیقت آگ نہیں تھی بلکہ تجلی الٰہی ہی تھی اور اس طرح جو آواز وہاں سنائی دی وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قوت خاص یعنی فرشتہ کی تھی جو انبیاء کرام کی طرف وحی لے جانے پر مقرر کیا گیا تھا وہ اسلام کی زبان میں اس کو ” جبرئیل “ اور ” روح القدس “ کہا گیا ہے۔ جس کا کام صرف پیغام رسانی کا ہے وہ اپنی طرف سے کوئی حکم کسی نبی کو نہ دے سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو پہلا پیغام موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا وہ توحید رباین کے ساتھ فرعون کی اصلاح کا تھا۔ فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف جائیں اس لئے کہ اس کے درباریوں نے فرعون کے حکم کی تابعداری کی اور فرعون کا حکم بہت ہی غلط قسم کا تھا ” رشید “ غوی کی ضد ہے اور رشید کا لفظ ہر اس کام کے لئے استعمال ہوتا ہے جو قابل تحسین اور پسندیدہ ہو اور غدایت غدایت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہو مطلب یہ ہوا کہ فرعون کی ساری باتیں رشد و ہدایت سے بیگانہ تھیں اس کے دعویٰ خدائی سے لے کر بنی اسرائیل کو غلام بنانے تک کوئی قانون اور کوئی حکم بھی ایسا نہ تھا جس میں رشد و ہدایت کی کوئی بات ہو یا عقل و دانش کے معیار پر پوری اترتی ہو جو کچھ تھا سب کا سب سینہ زوری اور ظلم و تشدد ہی تھا اور جن جن احمقانہ حرکات کا وہ عمر بھر ارتکاب کرتا رہا قوم میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اس سے جواب طلب کرتا کہ بادشاہ سلامت ایسا کیوں ؟ وہ رات کو دن اور دن کو رات کہتا تو قوم اس کی ہاں بھی ہاں ملاتی۔ آج کل کی زبان میں اس کو ” ڈکٹیٹر شپ “ کا نام دیا جاتا ہے اور پوری قوم اس ” ڈکٹیٹر شپ “ کے خلاف ہے اور ہونا بھی چاہئے لیکن افسوس کہ اس وقت ایک فرد کی بجائے ایک پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ “ کو سر آنکھوں پر رکھ لیا گیا جس کا صحیح معنوں میں نتیجہ یہ نکلا ایک فرعون کی بجائے سینکڑوں اور فرعون نظر آنے لگے اور ہر فرعون فرعون کا ساتھی ہو کر فرعونیت ہی فرعونیت ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرعونیت کا دفاع کرنے والے افراد فرعون ہوگئے۔ جس ایک فرعون کی فرعونیت کے لئے موسیٰ بھیجے گئے اس ایک فرعون کی جگہ اس ملک عزیز پاکستان میں مزاری ، لغاری ، دریشک ، کھو سے ، گورمانی ، دولتانے ، قریشی ، گیلانی ، گردیزی ، ڈا ہے ، ممدوٹ ، موکل ، قزلباش ، شیخ ، بخاری ، مرزائی ، چٹھے ، نواب زادے ، کھرل ، سید ، پیرزادے ، سیال ، رجوعے ، ٹوانے ، نون ، کھوکھر ، راجے ، گکھڑ ، الیپال ، گوندل ، جو دھرے ، گھس بے ، کٹھر ، مکھڈ ، اعوان ، نیازی ، نکئی ، میاں ، بچھر اور جو نیجو وغیرہ خاندانوں کے سارے فرعونوں کی فرعونیت کو مٹانے والے اسلامی جماعتوں کے سارے ایم رو صدر خود فرعون بن بیٹھے اور ہر فرعون ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے بےتاب بیٹھا ہے اور سنت اللہ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ فرعون کی فرعونیت سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ فرعون کو غرق کردیا جائے۔ موسیٰ کے فرعون کو بھی اللہ ہی نے غرق کیا اور فرعونوں کو بھی اللہ ہی غرق کرے تو یہ غرق ہوں گے۔ ہاں ! ہمیں اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس فرعون سے مواخذہ ہوا اور ان فرعونوں سے بھی مواخذہ ہوگا۔ انشاء اللہ۔
Top