Tafseer-e-Mazhari - Hud : 98
یَقْدُمُ قَوْمَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ١ؕ وَ بِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ
يَقْدُمُ : آگے ہوگا قَوْمَهٗ : اپنی قوم يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن فَاَوْرَدَهُمُ : تو لا اتارے گا انہیں النَّارَ : دوزخ وَبِئْسَ : اور برا الْوِرْدُ : گھاٹ الْمَوْرُوْدُ : اترنے کا مقام
وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور ان کو دوزخ میں جا اُتارے گا اور جس مقام پر وہ اُتارے جائیں گے وہ برا ہے
یقدم قومہ یوم القیمۃ فاو ردھم النار قیامت کے دن دوزخ کی جانب وہ اپنی قوم کا پیشوا ہوگا اور دوزخ میں سب کو اتار دے گا۔ جس طرح دنیا میں گمراہی کی جانب بڑھنے میں سب کا امام تھا۔ قیامت کے دن چونکہ ایسا ہونا اتنا یقینی ہے کہ گویا ایسا ہوگیا ‘ اس لئے بجائے مستقبل کے ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا اور اَوْرَدَھُم فرمایا۔ ورود کا معنی ہے : چشمہ وغیرہ میں اترنا۔ دوزخ کو پانی فرض کر کے اس میں داخل ہونے کو ورود قرار دیا (گویا دوزخ ایک چشمہ یا تالاب ہوگا جس میں فرعون آگے آگے اور اس کے اتباع جو جانوروں کی طرح جاہل ‘ ناسمجھ تھے ‘ پیچھے پیچھے اس میں اتریں گے) ۔ وبئس الورد المورود اور وہ دوزخ بہت ہی بری جگہ ہے اترنے کی جس میں یہ لوگ اتارے جائیں گے۔ پانی میں اترنا ‘ پیاس بجھانے اور خنکی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے اور دوزخ میں اترنے سے پیاس اور سوزخ میں مزید اضافہ ہوگا ‘ اس لئے فرمایا کہ برا چشمہ ہوگا۔ آیۃ میں وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ ایک دعویٰ تھا اور یَقْدُمُ قَوْمَہٗ الخ اس کی دلیل ہے کیونکہ جس کی رہنمائی دوزخ میں لے جائے وہ یقیناً غلط رو ہوگا اور اس کی رہبری تباہ کن ہوگی۔ یا یوں کہا جائے کہ رشید وہ ہے جس کا انجام اچھا ہو اور فرعون کی پیشوائی کا انجام تباہ کن ہوگا۔ گویا دوسری آیت ‘ پہلی آیت کی تشریح ہے۔
Top