Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے
واذکر فی الکتب ابراہیم انہ کان صدیقا نبیا۔ اور کتاب (قرآن) میں ابراہیم (کے واقعہ) کو یاد کرو بلاشبہ وہ صدیق اور نبی تھا۔ صدیق کس کو کہتے ہیں مختلف علما نے مختلف معانی بیان کئے ہیں (1) بہت سچ بولنے والا (2) جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو۔ (3) سچ بولنے کا عادی ہو۔ صدق کی عادت کی وجہ سے اس کا کذب کا صدور نہ ہوا ہو۔ (4) جس کا اعتقاد بھی صحیح ہو اور قول بھی سچا اور اس نے اپنے عمل سے اپنے قول کی تصدیق کی ہو اور قول کے مطابق عملی مظاہرہ کرتا ہو۔ (5) اللہ کی تمام غیبی صفات اللہ کے انبیاء (اور ملائکہ) اور قیامت جن کا بیان اللہ نے کیا ہے سب کی تصدیق کرتا ہو۔ اللہ نے جن کاموں کو کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا ہے ان امور کو اللہ کے حکم کے مطابق اچھا یا برا جانتا ہو اور احکام خداوندی کی عملی پابندی بھی کرتا ہو اور اپنے عمل سے تصدیق قلبی و لسانی کو ثابت کرتا ہو ‘ ایسا آدمی صدیق ہے۔ میں کہتا ہوں کثرت تصدیق سے یہ مراد نہیں ہے کہ زیادہ اور کثیر امور کی تفصیل اور تصدیق کی جائے جیسا کہ بغوی کی عبارت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے پورے دین کی اور تمام عقائد و اعمال کی تصدیق ہر مؤمن کے لئے ضروری ہے اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے کسی ایک مسئلہ کے انکار سے بھی کافر ہوجاتا ہے۔ ہاں مؤمنوں میں سے کچھ لوگ تمام اوامرو نواہی کے عملی پابند ہوتے ہیں ہر حکم شرعی کو بجا لاتے ہیں ایسے لوگ صالحین کہلاتے ہیں لیکن ہر صالح کو صدیق نہیں کہا جاسکتا۔ حقیقت میں صدیقیت کا مرتبہ تصدیق و ایمان کی قوت و شدت سے حاصل ہوتا ہے ایمان کی قوت درجۂ صدیقیت پر فائز کرتی ہے ایمان و تصدیق کی قوت انبیاء کو تو براہ راست بلا کسی توسط کے حاصل ہوتی ہے اور امت والوں کو انبیاء کی کامل پیروی کرنے اور ظاہرو باطن ہر طرح کے پورے پورے اتباع سے۔ امت کمالات نبوت میں جب ڈوب جاتا ہے اور انبیاء کی وراثت و تبعیت سے اس پر ذاتی خالص تجلیات کا ظہور ہوتا ہے تو درجۂ صدیقیت تک اس کی رسائی ہوتی ہے۔ آیت اولٰءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِیْنَمیں اپنے فیضان و انعام کا حامل چار قسم کے لوگوں کو قرار دیا ‘ انبیاء ‘ صدیقین ‘ شہداء ‘ صالحین دوسرے مؤمنوں کو انہی کی معیت و ہمرکابی کی بشارت دی۔ سورة النساء میں اس آیت کی تفصیلی توضیح ہم کرچکے ہیں ‘ صدیق وہی جماعت ہے جن کا ذکر سورة واقعہ کی آیت ثُلُّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخَرِیْنَ میں کیا ہے اور ہم نے اس کی تشریح اسی مقام پر کردی ہے۔ انبیاء کے بعد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ سب سے بڑے صدیق تھے اور صحابہ میں سے جلیل القدر صحابہ سب سے اونچے تھے اور جلیل القدر صحابہ میں بھی حضرت ابوبکر ؓ سب سے بڑے صدیق تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو صدیق فرمایا تھا اور اسی پر اہل سنت کا اجماع ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خود فرمایا تھا کہ 1 ؂ میں ہی صدیق اکبر ہوں میرے بعد جو صدیق اکبر ہونے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے یعنی میرے مرتبہ کے بعد نچلے درجہ پر رہتے ہوئے جو شخص صدیق اکبر ہونے کا مدعی ہوگا وہ کاذب ہے۔ بعد ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ میرے بعد جو مدعی ہوگا بلکہ بعدیت سے مراد ہے مرتبہ کی بعدیت اور درجہ میں پیچھے رہنا۔ نبی کا لفظ یا نبوۃ سے ماخوذ ہے یعنی عالی قدر اور اونچے مرتبہ والا۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر بنایا ہوا۔ نبوہ ٹیلہ زمین کا ابھرا ہوا اونچا حصہ۔ یا نبأ (خبر) سے ماخوذ ہے یعنی اللہ کی طرف سے (دین حق سے باخبر۔ جس کو براہ راست اللہ کی طرف سے خبر دی جاتی ہے) ۔
Top