Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 10
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ
يُخٰدِعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کو وَ : اور الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَ : اور مَا : نہیں يَخْدَعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے نفسوں کو وَ : اور مَا : نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
یہ (اپنے پندار میں) خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ( اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لا چکے ہیں دھوکہ دیتے ہیں) اصل میں خَدْعٌ اسے کہتے ہیں کہ تم کسی شخص کو اس مکروہ اور ناپسند بات کے بر خلاف دھوکہ میں ڈالو جسے تم مخفی رکھتے ہو اور یہ عرب کے قول خدَعَ الضَّبُّ سے لیا گیا یعنی جب گوہ اپنے بل میں چھپ کر شکاری کو ظاہر ہونے اور نکلنے کا دھوکہ دیتی ہے ( تو اہل زبان اسے خدع الضب سے تعبیر کرتے ہیں) خدَعَکے لغوی معنے پوشیدہ کرنے کے ہیں۔ خدا کو دھوکہ دینے کا یہ مطلب ہے کہ وہ رسول خدا ﷺ کو دھوکا دیتے ہیں اس صورت میں یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ میں ایک مضاف محذوف ماننا پڑیگا یا یوں کہو کہ منافقوں کا رسول کے ساتھ یہ معاملہ کرنا گویا عین خدا کے ساتھ معاملہ کرنا ہے کیونکہ رسول زمین میں خدا کا نائب اور اس کا خلیفہ ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ اور فرمایا : اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّما یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ یُخَادِعُوْنَ ہے تو باب مفاعلہ سے اور اس کا خاصہ ہے مشارکت یعنی ایک فعل کا دو شخصوں میں اس طرح واقع ہونا کہ ایک دوسرے کے ساتھ وہی برتاؤ کرے جو اس کے ساتھ کرتا ہے لیکن یہاں یُخٰدَعُوْنَ کے معنی میں ہے اور مفاعلہ مبالغہ کے لیے اختیار کرلیا گیا ہے کیونکہ فعل بوقت مقابلہ زیادہ قوی ہوتا ہے یا یوں کہئے کہ منافقوں کا خدا تعالیٰ کے ساتھ یہ معاملہ کہ ظاہر میں ایمان کا دعویٰ کرتے اور دلوں میں کفر کی جڑ مخفی رکھتے ہیں اور خدا کا ان کے ساتھ یہ برتاؤ کہ ان پر اسلام کے احکام جاری فرماتا ہے باوجودیکہ وہ کافروں سے بھی زیادہ خبیث اور گندے ہیں۔ ادھر جناب نبی اکرم ﷺ اور مسلمانوں کا حکم الٰہی بجا لانا کہ ان کا حال مخفی رکھتے اور اسلام کے احکام ان پر جاری کرتے تھے یہ سب معاملات چونکہ صورۃً ایسے دو شخصوں کے فعل تھے جو باہم ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں ( اس لیے یُخَادِعُوْنَ کا لفظ جو مشارکت کو مقتضی تھا لایا گیا) پھر یہ جملہ تو یَقُوْلُ کا بیان ہے۔ یا علیحدہ اور جدا مقصود کے بیان کے لیے جملہ شروع کیا۔ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ حرمی قراء اور ابو عمرو کی قرأت وَ مَا یُخَادِعُوْنَ ہے اِلَّا اَنْفُسَھُمْ ( اور حقیقت میں دھوکا نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو) کیونکہ خدا پر کوئی چھوٹی سی چھوٹی اور پوشیدہ سے پوشیدہ چیز بھی چھپی نہیں رہتی اور وہ اپنے برگزیدہ اور مقدس نبی ﷺ اور پاکباز مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً ان کے حال پر مطلع کرتا ہے تو وہ اس لحاظ سے خود دھوکہ میں پڑگئے کہ اپنے نفسوں کو اس بات پر فریب خوردہ کردیا کہ ہم عذاب و فضیحت سے بےخوف ہوگئے ( اور نبی وقت اور مسلمانوں پر ہمارا دھوکہ چل گیا لیکن حقیقت میں ایسا نہ تھا اور جب یہ ہے) تو ان کے دھوکہ دینے کا ضرر انہیں پر پلٹ پڑا نہ ان کے غیر پر۔ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ ( اور اپنی غفلت و بیخبر ی میں منہمک ہونے کی وجہ سے اس بات کو محسوس نہیں کرتے) اور نہیں سمجھتے کہ ہمارے دھوکہ دینے کا ضرور خود ہم ہی پر پلٹ پڑتا ہے شُعُور کہتے ہیں حواس سے کسی چیز کے معلوم کرنے کو۔ یہاں انہیں کی طرف پلٹ جانے کو اس محسوس چیز کے قائم مقام کیا گیا جو صرف ماؤف الحواس شخص پر مخفی رہتی ہے۔
Top