Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 11
الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ١ؕ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
الَّذِيْنَ : جو يَرِثُوْنَ : وارث (جمع) الْفِرْدَوْسَ : جنت هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
(یعنی) جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے
الذین یرثون الفردوس : جو فردوس کے وارث ہوں گے۔ اُولٰءِکَیعنی یہی لوگ جو اوصاف مذکورہ کے حامل ہیں۔ اَلْوَارِثُوْنَیعنی اس بات کے مستحق ہیں کہ صرف انہی کو (فردوس کا) وارث کہا جائے گا۔ اَلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَیہ الْوَارِثُوْنَ کا وصف ہے اور جس چیز کے وارث ہوں گے اس کا بیان ہے۔ پہلے بلا تعیین وراثت کا ذکر کیا گیا پھر تعیین کے ساتھ وراثت فردوس کا ذکر کیا۔ اس سے وراثت کی عظمت اور بلندئ شان ظاہر ہوگئی۔ (شبہ کیا جاسکتا ہے کہ وارث ہونے کا لفظ چاہتا ہے کہ پہلے فردوس کسی اور کی تھی پھر مؤمنوں کو دے دی جائے گی ‘ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس شبہ کو دور کرنے کیلئے حضرت مفسر نے فرمایا) مراد یہ ہے کہ فردوس کے اندر کافروں کیلئے بھی نامزد کچھ مکان ہوں گے کہ اگر وہ ایمان لے آتے تو وہ مکان ان کو دے دیئے جاتے اور چونکہ وہ مسلمان نہ ہوئے اس لئے ان کے مکانوں کا وارث مؤمنوں کو کردیا جائے گا۔ یَرِثُوْنَکا یہی مطلب ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک کے لئے دو گھر ہیں۔ ایک گھر جنت میں اور دوسرا دوزخ میں۔ جب کوئی مر کر دوزخ میں چلا جاتا ہے تو اہل جنت اس کے جنت والے گھر کے وارث ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے فرمان اولٰءِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَکا یہی مطلب ہے۔ رواہ ابن ماجۃ سعید بن منصور و ابن جریر وا ابن المنذر وابن ابی حاتم و ابن مردویہ والبیہقی فی البعث۔ عبدالرزاق ‘ عبد بن حمید ‘ ابن جریر اور حاکم کی روایت ان الفاظ کے ساتھ (بھی) آئی ہے کہ اہل جنت اپنے مکانوں کے بھی وارث (مالک) ہوں گے اور اپنے ان بھائیوں کے مکانوں کے بھی کہ اگر وہ (اللہ اور اللہ کے رسول کے احکام) کو مان لیتے تو ان کے مالک ہوتے کہ ان کے لئے وہ مکان تیار کر ہی دیئے گئے تھے۔ ابن ماجہ نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اپنے وارث کی میراث سے بھاگے گا اللہ جنت کے اندر اس کا میراثی حصہ ختم کر دے گا۔ بعض علماء نے کہا وارث ہونے کا یہ معنی ہے کہ مآل کار ان کو جنت ملے گی ‘ جیسے وارث بالآخر میراث پاتا ہے۔ فردوس سب سے اونچی جنت ہے ‘ اس کی مفصل تشریح سورة کہف میں گزر چکی ہے۔ ہم فیہا خلدون۔ وہ فردوس میں ہمیشہ رہیں گے نہ مریں گے نہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ امام احمد ‘ ترمذی ‘ نسائی اور حاکم نے حضرت عمر ؓ بن خطاب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ پر وحی کا نزول ہوتا تھا تو اس وقت آپ کے چہرے کے پاس شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح کچھ بھنبھناہٹ سنی جاتی تھی۔ ایک روز جو وحی نازل ہونے لگی تو ہم (ختم وحی تک) ٹھہرے رہے (منتظر رہے) جب وحی کی حالت ختم ہوگئی تو حضور ﷺ نے قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا اے اللہ ہم کو اور دے ‘ کمی نہ کر ‘ ہم کو عزت عطا فرما ‘ ذلیل نہ کر ‘ ہم کو عطا فرما محروم نہ کر ‘ ہم کو دوسروں پر ترجیح عطا فرما ‘ دوسروں کو ہم پر برتری نہ دے۔ ہم کو خوش کر دے اور ہم سے راضی ہوجا۔ پھر فرمایا مجھ پر دس آیات نازل کی گئی ہیں جو ان کو قائم کرے گا (یعنی ان پر پورا عمل کرے گا) وہ جنت میں داخل ہوگا اس کے بعد آپ نے (قَدْ اَفْلَحَ الْمُوٌْمِنُوْنَ ) سے دس آیات تک تلاوت فرمائیں۔ نسائی نے اس حدیث کو منکر کہا ہے لیکن حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ یہ آیات تمام ابواب خیر کا مجموعہ ہیں ان میں مؤمنوں کے متعدد اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ نماز میں خشوع رکھنا ‘ اوقات کی پابندی کرنا۔ ہمیشہ زکوٰۃ ادا کرتے رہنا لغو باتوں سے اعراض کرنا ‘ تمام محرمات سے اجتناب رکھنا وغیرہ۔ ان اوصاف کا حامل تمام کثافتوں اور گندگیوں سے پاک ہوجاتا ہے اور ذاتی و صفاتی تجلیات کی پَر تو اندازی کی اس میں استعداد پیدا ہوجاتی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top