Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 3
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
لَعَلَّكَ : شاید تم بَاخِعٌ : ہلاک کرلوگے نَّفْسَكَ : اپنے تئیں اَلَّا يَكُوْنُوْا : کہ وہ نہیں مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لاتے
(اے پیغمبرﷺ) شاید تم اس (رنج) سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے اپنے تئیں ہلاک کردو گے
لعلک باخع نفسک شاید آپ اپنی جان کھو دیں گے۔ بَخَعَ نَفْسَۂ اس نے غم میں اپنی جان ہلاک کردی۔ بَخاعپشت میں ایک رگ ہوتی ہے جو گردن میں بھی آتی ہے یہ رگ حسب زعم زمخشری نخاع (حرام مغز) کے علاوہ ہوتی ہے اور نجع کا اصل معنی ہے ذبح کرتے وقت چھری کو نجاع تک پہنچا دینا پھر اس کا استعمال ہر مبالغہ کے لئے ہونے لگا 1 ؂۔ الا یکونو مؤمنین۔ اس وجہ سے کہ وہ مؤمن نہیں ہوتے (ایمان نہیں لاتے) اس آیت کا نزول اس وقت ہوا جب اہل مکہ نے رسول اللہ کی تکذیب کی اور آپ کو یہ بات بہت شاق ہوئی کیونکہ حضور ﷺ : کو بہت زیادہ تمنا اور رغبت تھی کہ اہل مکہ مسلمان ہوجائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضور کو اہل مکہ کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اس بات کا غم ہو کہ کہیں خدا تعالیٰ مجھ سے اس کی باز پرس نہ کرے اس صورت میں یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے لئے پیام تسلی ہے۔ لعل کلمہ امید ہے لیکن اس جگہ رحم کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے یعنی اپنی جان پر آپ رحم کریں اور غم میں نہ پڑیں آپ اگر غم کریں گے تو شاید آپ غم کی وجہ سے اپنی جان ہلاک کردیں۔ درحقیقت ہم ہی ان کا مؤمن ہونا نہیں چاہتے۔
Top