Tafseer-e-Baghwi - Al-Anbiyaa : 9
قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّ اُولُوْا بَاْسٍ شَدِیْدٍ١ۙ۬ وَّ الْاَمْرُ اِلَیْكِ فَانْظُرِیْ مَا ذَا تَاْمُرِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے نَحْنُ : ہم اُولُوْا قُوَّةٍ : قوتے والے وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍ : اور بڑے لڑنے والے وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ : اور فیصلہ تیری طرف (میرے اختیار میں) فَانْظُرِيْ : تو دیکھ لے مَاذَا : کیا تَاْمُرِيْنَ : تجھے حکم کرنا ہے
وہ بولے کہ ہم بڑے زورآور اور سخت جنگجو ہیں اور حکم آپ کے اختیار ہے تو جو حکم دیجیئے گا (اس کے مآل پر) نظر کرلیجیئے گا
قالو نحن اولوا قوۃ واولوا ولوا باس شدید والامر الیک فانظری ماذا تامرین . وہ کہنے لگے : ہم بڑے طاقتور اور بڑے لڑنے والے ہیں (آئندہ) اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے آپ خود ہی غور کرلیں (اور) جو حکم آپ دیں (ہم اس کی تعمیل کریں گے) ۔ قُوۃٍ یعنی لڑنے کی قوت ‘ بَأْسٍ شَدِیْدٍ یعنی لڑائی کے وقت سخت طاقتور۔ مقاتل نے کہا : قوت سے مراد ہے تعدادی کثرت اور بأس سے مراد ہے شدید شجاعت۔ بلقیس نے اہل دربار سے صلح یا جنگ دونوں کا مشورہ لیا تھا۔ لڑائی صلح کے مقابلہ میں مشکل اور سخت کام ہے۔ جنگ کی صورت میں اہل دربار نے تعمیل حکم کا اقرار کیا ‘ برخلاف ان یہودیوں کے جنہوں نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا تھا : فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ اِنَّا ھٰھُنَا قَعِدُوْنَ تم اور تمہارا خدا اور دونوں جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ‘ یعنی ہم تو آگے نہیں جائیں گے۔ جب بلقیس کے حکم پر انہوں نے لڑنے کا اظہار کردیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ صلح کا اگر حکم ہوا تو ہم اس کی تعمیل بدرجۂ اولیٰ کریں گے آپ کو دونوں باتوں کا اختیار ہے۔ مَاذَا تَاْمُرِیْنَ میں ما استفہامیہ ہے اور پورا جملہ بتاویل مفرد ہو کر انظری کا مفعول ہے یعنی آپ خود دیکھ لیں اور سوچ لیں کہ دونوں میں کون سی چیز آپ کے لئے مفید ہے جنگ یا صلح ‘ بہرحال ہم آپ کے فیصلہ پر چلنے کے لئے تیار ہیں۔
Top