Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 47
قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ١ؕ قَالَ طٰٓئِرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ
قَالُوا : وہ بولے اطَّيَّرْنَا : برا شگون بِكَ : اور وہ جو وَبِمَنْ : اور وہ جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ (ساتھی) قَالَ : اس نے کہا طٰٓئِرُكُمْ : تمہاری بدشگونی عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : ایک قوم تُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہو
وہ کہنے لگے کہ تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لئے شگون بد ہے۔ صالح نے کہا کہ تمہاری بدشگونی خدا کی طرف سے ہے بلکہ تم ایسے لوگ ہو جن کی آزمائش کی جاتی ہے
قالو اطیرنا بک وبمن معک . کہنے لگے : ہم تو تم کو اور تمہارے ساتھ والوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ یعنی تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو ہم منحوس سمجھتے ہیں۔ تم لوگ منحوس ہو کہ جب سے تم نے یہ نیا مذہب نکالا ہے ہمارے اندر پھوٹ پڑگئی ہے۔ ہم پر پیہم مصائب کا نزول ہونے لگا ‘ ہم بارش سے محروم ہو کر قحط میں مبتلا ہوگئے۔ یہ سارے دکھ اور تکلیفیں تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کی نحوست کی وجہ سے ہیں۔ قال طئرکم عند اللّٰہ . صالح نے کہا : تمہاری نحوست کا سبب اللہ کے علم میں ہے۔ طائر نحوست۔ مراد نحوست کا سبب جس کی وجہ سے خرابیاں آئیں۔ بس اللہ کا حکم ہے یا تمہاری بداعمالیاں ہیں جو اللہ کے پاس لکھی ہوئی ہیں۔ قضاء خداوندی سے زیادہ تیزی کے ساتھ پہنچنے والی کوئی چیز نہیں ‘ اسی سرعت نزول کی وجہ سے اس کو طائر قرار دیا۔ لاشئ اسرع من قضاء محتوم قضاء قطعی سے زیادہ تیز کوئی چیز نہیں اور چونکہ انسانی اعمال آسمان کی طرف بہت تیزی کے ساتھ چڑھتے ہیں اس لئے ان کو بھی طائر کہا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : طَاءِرُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ کا یہ مطلب ہے کہ تم پر یہ نحوست تمہاری کفر کے سبب اللہ کی طرف سے ہے۔ بعض اہل علم نے کہا : نحوست کو طاہر کہنے کی یہ وجہ ہے کہ سفر کے وقت پرندوں کے ایکخاص رفتار سے گزرنے اور آواز نکالنے کو عرب برا شگون سمجھتے تھے اسی عقیدہ کی بنا پر لفظ طائر سے بطور استعارہ نحوست مراد لی جاتی تھی۔ بل انتم قم تفتنون . بلکہ تم وہ لوگ ہو جو (اپنے کفر کی وجہ سے) عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ یہ کلام سابق کے مفہوم سے اعراض ہے یعنی میری اور میرے ساتھیوں کی وجہ سے یہ مصائب تم پر نہیں ہیں بلکہ تمہارے کفر کی وجہ سے تم پر یہ عذاب آ رہا ہے (یا عذاب آئے گا) حضرت ابن عباس ؓ نے (اس جگہ فتنہ کا معنی جانچ اور امتحان کیا ہے اور) فرمایا : بلکہ بھلائی اور برائی (دکھ اور سکھ) دے کر تمہاری آزمائش کی جا رہی ہے۔ اسی مفہوم کو دوسری آیت میں اس طرح ادا کیا ہے : وَنَبْلُوْھُمْ بِّالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتُنَۃً ہم دکھ سکھ دے کر ان کی پختہ آزمائش کرتے ہیں۔
Top