Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
مومنو! خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا
یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ اے ایمان والو اللہ (کے عذاب سے ڈرو جیسا کہ حق ڈرنے کا ہے تقاۃ اصل میں وُقْیَۃٌ تھا تُوْدَۃٌ اور تخمۃ کی طرح واؤ کو تاء سے بدل دیا پھر یاء کو الف سے بدل دیا کیونکہ یاء سے پہلے حرف صحیح ساکن تھا اور یاء پر فتحہ تھا اس کے علاوہ یا کو الف سے بدلنے کی یہ وجہ بھی ہے کہ اس مصدر سے جتنے افعال آتے ہیں ان میں یا الف سے بدل دی گئی ہے جیسے : وَقٰی وَقوْا وغیرہ) لہٰذا فعل سے موافقت پیدا کرنے کے لیے مصدر میں بھی یاء کی جگہ الف آگیا) ۔ عبد الرزاق، فریانی، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے اپنی اپنی تفسیروں میں اور طبرانی نے معجم میں اور حاکم نے مستدرک میں اور ابونعیم نے حلیہ میں حضرت ابن مسعود کی موقوف روایت نقل کی ہے بلکہ ابو نعیم نے تو اس روایت کو مرفوع بھی کہا ہے کہ حق تقویٰ کا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے احکام کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے شکر کیا جائے نا شکری نہ کی جائے اس کو یاد رکھا جائے فراموش نہ کیا جائے۔ بغوی نے بحوالہ حضرت ابن مسعود و حضرت ابن عباس ؓ صرف اوّل ٹکڑا نقل کیا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے۔ میں کہتا ہوں یاد کرنے اور بھول نہ جانے کا مدار فناء قلب پر ہے۔ رہی اطاعت و عدم عصیان اور شکر و عدم کفران تو ان امور کا مدار نفس کے فناء پر ہے حقیقی ایمان اور قلبی اطمینان پر ہی اطاعت کلی اور شکر دوامی کی بنا پر ہے۔ پس اس آیت کا تقاضا ہے کہ کمالات ولایت کو حاصل کرنا واجب ہے آیت کے سبب نزول کا بھی یہی تقاضا ہے اوس و خزرج کا باہمی تفاخر باقی ماندہ امراض نفس کا نتیجہ تھا اس لیے تمام امراض باطنہ سے نفس کو پاک کرنے اور مکارم اخلاق خشیت اللہ اور ذکر دوامی سے قلب و نفس کو آراستہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ مجاہد نے آیت کے مطلب کی توضیح اس طرح کی ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حق ادا کرو احکام خدا وندی کی تعمیل سے تم کو کسی ملامت گر کی ملامت نہ رو کے اللہ کے لیے انصاف قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوجاؤ خواہ خود تمہارا، تمہارے ماں باپ اور اولاد کا اس میں نقصان ہو رہا ہو۔ حضرت انس کا قول ایک روایت میں آیا ہے کہ بندہ اس وقت تک حق تقویٰ ادا نہیں کرتا جب تک اپنی زبان کی نگہداشت نہ کرے۔ میں کہتا ہوں کہ مجاہد اور حضرت انس ؓ نے وہ راستہ بتایا ہے جو کمالات ولایت کو پہنچاتا ہے کیونکہ کم کھانا ‘ کم سونا ‘ ہمیشہ ذکر کرنا ‘ زبان کو لغو باتوں سے روکنا ‘ عوام سے اختلاط کم رکھنا ‘ اللہ کے حقوق کے معاملہ میں لوگوں کی پرواہ نہ کرنا کمال ولایت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ اہل تفسیر کا بیان ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کے لیے بڑی دشواری ہوگئی اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ اس حکم کی (پوری) تعمیل کرنے کی کس میں طاقت ہے ؟ اس قول کے بعد اللہ نے نازل فرمایا : فاتقوا اللہ ما استطعتم جہاں تک طاقت ہو تقویٰ اختیار کرو پس اس آیت سے اوّل آیت کا حکم منسوخ کردیا گیا مقاتل نے کہا کہ آل عمران میں سوائے اس آیت کے کوئی دوسری آیت منسوخ نہیں۔ میں کہتا ہوں اس قول کا یہ مطلب نہیں کہ حق تقویٰ کا وجوب منسوخ ہوگیا کیونکہ غرور، بےجا غصہ، حسد، کینہ، نفاق، بد خلقی دنیا کی محبت ‘ اللہ کی طرف توجہ میں کمی ‘ دوسروں سے دل کی لگاوٹ اور اسی طرح کی دوسری نفسانی خباثتیں بہر حال ہر وقت حرام ہیں ان کی حرمت کے منسوخ ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان بزرگوں کے قول کا مقصد یہ ہے کہ ایک دم تمام امراض نفسانیہ کا دور کردینا تو کسی شخص کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ اللہ کا طریقہ یوں جاری ہے کہ امراض سے تزکیہ (رفتہ رفتہ) اہل دل اور مقدس نفوس والوں کی صحبت اور مختلف ریاضتیں کرنے سے ہوتا ہے یکدم نہیں ہوجاتا اسی لیے اللہ نے اجازت دیدی اور بقدر امکان نفس کو پاکیزہ بنانے اور دل کو جلا دینے کی کوشش کو واجب قرار دیدیا اب جو شخص بالکل تزکیہ نفس کی کوشش سے منہ موڑ کر خواہشات کی طرف اپنا رخ پھیر لے گا اس پر تمام رذائل نفس کا گناہ ہوگا جو کچھ دلوں کے اندر ہوگا خواہ اس کو ظاہر کرو یا نہ کر وا اللہ اس کی حساب فہمی ضرور کرے گا پھر جس کو چاہے گا معاف کردے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا اور جو شخص ازالہ امراض کے طریقہ کی جستجو میں لگا رہے گا اور اندرونی بیرونی خباثتوں کو دور کرنے کی امکانی کوشش کرتا رہے گا خواہ وہ درجہ کمال تک نہ پہنچا ہو مگر چونکہ ادائے فرض کر رہا ہے اس لیے امید ہے کہ اللہ اس کمی کو معاف کر دے گا جس کو پورا کرنے اختیار سے باہر ہے۔ و لا تموتن الا وانتم مسلمون یعنی حقیقی اسلام پر ہی تم مرو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تمام نواہی واوامر کے پابند رہو، تمام اعمال و افکار میں خلوص رکھو، اپنے تمام کام اللہ کے سپرد کردو، اس کے فیصلہ پر دل سے راضی رہو اس کے علاوہ تمہاری کوئی حالت نہ ہونی چاہئے اسی حالت پر تمہاری موت ہو۔ اگر کسی صفت یا حالت کے ساتھ کوئی فعل مقید ہو اور اس فعل کی ممانعت کی جائے تو کبھی (وہ قید محض اتفاقی ہوتی ہے اور) مقصدہوتا ہے مطلق فعل سے منع کرنا جیسے اللہ کی زمین پر زنا نہ کرو (لفظ زمین پر محض اتفاقاً مذکور ہے اس سے مراد ہے مطلق زناء کی ممانعت ‘ خواہ زمین پر ہو یا ہوائی جہاز میں) کبھی نفی اور نہی کا رخ قید کی طرف ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے (کہ مطلق مرنے سے روکنا مقصود نہیں ہے بلکہ اسلام کے علاوہ کسی دوسری حالت پر مرنے کی ممانعت کی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ تمہاری کوئی دوسری حالت ہی نہ ہو کہ غیر اسلام پر تمہاری موت کبھی آجائے) کبھی مجموعہ کی طرف نہی کا رخ ہوتا ہے جیسے مچھلی نہ کھاؤ جب کہ دودھ پی رہے ہو۔ (یعنی دودھ مچھلی ایک وقت میں نہ کھاؤ۔ الگ الگ مختلف اوقات میں دونوں چیزیں کھا سکتے ہو) کبھی ممانعت کا رجوع دونوں میں سے ہر ایک کی طرف انفرادی حالت میں ہوتا ہے جیسے ہمسایہ کی بیوی سے زنا نہ کرو (اس سے ہمسایہ کی بیوی سے زناء کرنے کی ممانعت بھی مقصود ہے اور مطلق زنا کی بھی) ۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے یہ فرمایا : لوگو ! اللہ سے پورے پورے ڈرتے رہو (یعنی آیت : یایھا الذین امنوا اتقو اللہ حق تقاتہ۔۔ تلاوت فرمائی اور فرمایا :) اگر زقوم کا ایک قطرہ زمین پر ٹپکا دیا جائے تو زمین والوں کی زندگی تلخ بنا دے پس کیا حال ہوگا اس شخص کا جس کا کھانا سوائے زقوم کے اور کچھ نہ ہوگا۔ (رواہ الترمذی و قال حسن صحیح)
Top