Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 105
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو تَفَرَّقُوْا : متفرق ہوگئے وَاخْتَلَفُوْا : اور باہم اختلاف کرنے لگے مِنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ جَآءَھُمُ : ان کے پاس آگئے الْبَيِّنٰتُ : واضح حکم وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْم : بڑا
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرےسے (خلاف و) اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن بڑا عذاب ہوگا
و لا تکونوا کالذین تفرقوا اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو پھٹ کر بٹ گئے یعنی یہودیوں کی طرح نہ ہوجانا جو پھٹ کر بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ واختلفوا من بعد ما جاء ھم البینات اور کھلے ہوئے قطعی دلائل آنے کے بعد اہم اختلاف کرنے لگے۔ البینات سے مراد ہیں اللہ کی آیات محکمہ اور انبیاء کی احادیث متواترہ اور انہی جیسی دوسری دلیلیں جیسے اجماع امت اسلامیہ۔ اختلاف عام ہے خواہ اصول دین میں ہو جیسے اہل سنت سے اہل بدعت (معتزلہ، خوارج وغیرہ) کا اختلاف یا ان فروعی مسائل میں ہو جن کا ثبوت اجماعی ہے جیسے وضوء میں پاؤں دھونا اور خفین پر مسح کرنا اور خلفاء اربعہ کی خلافت۔ قطعیت کی شرط لگانے سے اس امتناعی حکم سے وہ اختلاف خارج ہوگیا جو ظنی دلائل میں اجتہادی اختلاف کی صورت میں ہوتا ہے کیونکہ ظنی دلائل کا اجتہادی اختلاف ضروری ہے اس اختلاف میں بعض مجتہدوں کی اجتہادی غلطی تو لامحالہ ہوتی ہے لیکن اگر ضد اور تعصب کے بغیر اجتہادی طاقت صرف کرنے کے بعد غلطی ہوجائے تو معاف ہے بلکہ لوگوں کے لیے رحمت (اور مجتہد کے لیے موجب ثواب) ہے۔ عبدین حمید نے مسند میں اور دارمی اور ابن ماجہ نے اور عبدری نے الجمع بین الصحیحین میں اور ابن عساکر نے اور حاکم نے حضرت عمر بن خطاب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : میں نے اپنے رب سے اپنے ساتھیوں کے اس اختلاف کے متعلق دریافت کیا جو میرے بعد ہوگا (کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا ؟ ) اللہ نے وحی بھیجی کہ محمد تیرے ساتھی میرے نزدیک ستاروں کی طرح ہیں بعض بعض سے زیادہ قوی (روشنی والے) ہیں۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ بعض نے بعض سے زیادہ روشن ہیں اور روشنی ہر ایک میں ہے۔ اب اختلافی مسائل میں جو بھی جس مسلک کو لے گا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہوگا۔ (رواہ الدارقطنی فی فضائل الصحابہ و ابن عبد البر عن جابر والبیہقی فی المدخل عن ابن عباس) بیہقی نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : تم کو جو کچھ (حکم) اللہ کی کتاب سے دیا گیا ہے اس پر عمل کرو کسی کے لیے کتاب اللہ کو ترک کرنے کا عذر نہیں ہوسکتا۔ اگر اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو نبی کی سنت فیصلہ کن ہے اگر نبی کی سنت (میں) بھی نہ ہو تو جو کچھ میرے صحابہ کہیں (اس پر عمل کرو) میرے اصحاب آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں جس کو پکڑ لو گے (اور پیچھے لگ جاؤ گے) ہدایت پاؤ گے۔ میرے صحابہ کا اختلاف تمہارے لیے رحمت ہے۔ بیہقی نے مدخل میں اور ابن سعد نے طبقات میں قاسم بن محمد کا قول نقل کیا ہے کہ محمد ﷺ کے صحابیوں کا اختلاف اللہ کے بندوں کے لیے رحمت ہے۔ بیہقی نے عمر بن عبد العزیز کا قول بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ و اولءِکَ لھم عذاب عظیم یعنی قطعی دلائل کے بعد جن لوگوں نے تفرقہ کیا انہی کے لیے عذاب عظیم ہے۔
Top