Al-Qurtubi - An-Nahl : 69
ثُمَّ كُلِیْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِیْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا١ؕ یَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
ثُمَّ : پھر كُلِيْ : کھا مِنْ : سے۔ کے كُلِّ الثَّمَرٰتِ : ہر قسم کے پھل فَاسْلُكِيْ : پھر چل سُبُلَ : راستے رَبِّكِ : اپنا رب ذُلُلًا : نرم و ہموار يَخْرُجُ : نکلتی ہے مِنْ : سے بُطُوْنِهَا : ان کے پیٹ (جمع) شَرَابٌ : پینے کی ایک چیز مُّخْتَلِفٌ : مختلف اَلْوَانُهٗ : اس کے رنگ فِيْهِ : اس میں شِفَآءٌ : شفا لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّتَفَكَّرُوْنَ : سوچتے ہیں
اور ہر قسم کے میوے کھا۔ اور اپنے پروردگار کے صاف راستوں پر چلی جا اس کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اس میں لوگوں (کے کئی امراض) کی شفا ہے بیشک سوچنے والوں کے لئے اس میں بھی نشانی ہے۔
آیت نمبر 69 قولہ تعالیٰ : ثم کلی من کل الثمرت اور یہ اس لئے ہے کیونکہ یہ درختوں سے کلیاں کھاتی ہیں۔ فاسلکی سبل ربک پھر تو اپنے رب کی راہوں پر چلتی رہا کر۔ اور السبل کا معنی الطرق (راستے) ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی نسبت اپنی طرف کی ہے کیونکہ وہ ان کا خالق ہے، یعنی تو پہاڑوں اور درختوں کے درمیان میں رزق تلاش کرنے کے لئے اپنے رب کی راہوں پر داخل ہوجا۔ ذللا یہ ذلول کی جمع ہے اور اس سے مراد مطیع کیا ہوا ہے، یعنی وہ راہیں جو مطیع اور مسخر کردی گئی ہیں، پس ذللا یہ النحل سے حال ہے، یعنی شہد کی مکھی تابعداری کرتی ہے اور وہاں جاتی ہے جہاں اس کا مالک چاہے، کیونکہ یہ اپنے مالکوں کی اتباع اور پیروی کرتی ہیں جہاں وہ جائیں ؛ یہ ابن زید نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قول باری تعالیٰ ذللا سے مراد راستے ہیں۔ اور یغسوب شہد کی مکھیوں کی سردار، ملکہ مکھی، جب وہ ٹھہر جائے تو یہ ٹھہر جاتی ہیں اور جب وہ چل پڑے تو یہ چل پڑتی ہیں۔ قولہ تعالیٰ : یخرج من بطورنھا شراب مختلف الوانہ فیہ شفآء للناس اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : یخرج من بطونھا یہ خطاب سے خبر کی طرف رجوع ہے اس بنا پر کہ اس میں نعمتوں کو شمار کرنا اور عبرت پر تنبیہ کرنا ہے پس فرمایا : یخرج من بطونھا شراب یعنی ان کے شکموں سے شہد نکلتا ہے۔ اور جمہور لوگوں کا موقف یہ ہے کہ شہد شہد کی مکھیوں کے مونہوں سے نکلتا ہے۔ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے ایک قول منقول ہے جو آپ نے اس دنیا کی حقارت بیان کرنے کیلئے کیا ہے کہ ابن آدم کا اشرف ترین اور عمدہ لباس وہ ہے جس میں ایک کیڑے کا لعاب ہے اور اس کا عظیم اور بہترین مشروب شہد کی مکھی کی بیٹ ہے۔ تو اس قول کا ظاہر اس پر دال ہے کہ شہد منہ کے سوا کسی اور مقام سے نکلتا ہے۔ المختصر یہ کہ وہ نکلتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ اس کے منہ سے نکلتا ہے یا اس کے نیچے سے، لیکن اس کی صلاحیت اور منفعت ان کے سانسوں کی گرمائش کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ارسطا طالیس نے شیشے کا ایک مکان بنایا تاکہ وہ اس کیفیت کو دیکھ سکے جو وہ عمل کرتی ہیں، تو انہوں نے وہ عمل نہ کیا یہاں تک کہ شیشے کا اندرونی حصہ مٹی کے ساتھ لتھڑ گیا، لت پت ہوگیا، اسے غزنوی نے ذکر کیا ہے۔ اور کہا : من بطونھا کیونکہ کھانوں میں تبدیلی اور تغیر پیٹ میں ہی ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 2: قولہ تعالیٰ : مختلف الوانہ اس سے مراد اس کی مختلف انواع اور اقسام ہیں یعنی سرخ، سفید، زرد، جامد اور سائل (بہنے والا) مائع۔ ماں ایک ہوتی ہے اور اولاد مختلف ہوتی ہے یہ اس پر دلیل ہے کہ قدرت نے اسے غذا کی تقسیم کے اعتبار سے تقسیم کردیا ہے، جیسا کہ اس کا ذائقہ کھائی جانے والی چیزوں کے مختلف ہونے کے حساب سے مختلف ہوتا ہے، اسی معنی میں حضور نبی مکرم ﷺ کے لئے حضرت زینب کا قول ہے : جرست نحلہ العرفط (اس شہد کی مکھی نے ببول کے درخت کو چوسا ہے) اس لئے اس کی بو مغافیر کی بو کے مشابہ ہے۔ مسئلہ نمبر 3: قولہ تعالیٰ : فیہ شفآء للناس، فیہ میں ضمیر شہد کے لئے ہے ؛ یہ جمہور نے کہا ہے، یعنی شہد میں لوگوں کے لئے شفا ہے۔ اور حضرت ابن عباس، حسن، مجاہد، ضحاک، فراء، اور ابن کیسان سے روایت کیا گیا ہے کہ یہ ضمیر قرآن کریم کے لئے ہے، یعنی قرآن میں لوگوں کے لئے شفا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ قول اچھا ہے یا ان میں لوگوں کیلئے شفا ہے جو ہم نے تم پر آیات وبراہین میں سے بیان کی ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : شہد میں شفا ہے، اور یہ قول بھی بین اور واضح ہے، کیونکہ اکثر وہ مشروبات اور معجونیں جن کے ساتھ علاج کیا جاتا ہے ان کی اصل شہد ہے۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا ہے : جنہوں نے کہا ہے کہ مراد قرآن کریم ہے یہ اس سے بہت بعید ہے جو میں ان کے طرف سے صحیح خیال کرتا ہوں، اور اگر نقلا صحیح بھی ہو تو عقلا صحیح نہیں، کیونکہ سیاق کلام مکمل طور پر شہد کے بارے ہے، قرآن کریم کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : جہلاء میں سے ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ اس آیت سے مراد اہل بیت اور بنو ہاشم ہیں کہ وہ نحل (شہد کی مکھی) ہیں، اور شراب قرآن اور حکمت ہے۔ ان میں سے کسی نے منصور ابو جعفر عباسی کی مجلس میں اس کا ذکر کیا، تو حاضرین میں سے کسی آدمی نے اس کو کہا : اللہ تعالیٰ نے تیرا کھانا، پینا اس میں سے بنایا ہے جو بنی ہاشم کے پیٹوں سے نکلتا ہے، پس اس نے حاضرین کو ہنسا دیا اور وہ دوسرا مبہوث ہوگیا اور اس پر اپنے قول کی کمزوری ظاہر ہوگئی۔ مسئلہ نمبر 4: علماء کا اس قول باری تعالیٰ : فیہ شفآء للناس کے بارے میں اختلاف ہے کیا یہ اپنے عموم پر ہے یا نہیں ؟ تو ایک گروہ نے کہا ہے : یہ اپنے عموم پر ہے اس میں ہر حال میں اور ہر ایک کے لئے شفا ہے۔ اور حضرت ابن عمر ؓ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کو جب بھی کسی زخم یا کسی اور بیماری کی شکایت ہوتی تو اس پر شہد استعمال کرتے تھے، یہاں تک کہ اگر پھوڑا نکل آتا تو اس پر شہد لگاتے تھے۔ اور نقاش نے ابو وجرہ سے بیان کیا ہے کہ وہ شہد کے ساتھ سرمہ لگاتے تھے اور شہد ہی بطور دست آور دوا پیتے تھے اور پھر شہد کے ساتھ ہی علاج کرتے تھے۔ اور روایت ہے کہ عوف بن مالک اشجعی (رح) بیمار ہوگئے تو ان کو کہا گیا : کیا ہم آپ کا علاج نہ کریں ؟ تو انہوں نے فرمایا : میرے پاس پانی لاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ونزلنا من السمآء مآء مبرکا (ق :9) (اور ہم نے اتار آسمان سے برکت والا پانی) ۔ پھر فرمایا : میرے پاس شہد لاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : فیہ شفآء للناس (اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے) اور میرے پاس زیتوں کا تیل لاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : من شجرۃ مبرکۃ (النور : 35) (برکت والے درخت سے) پس وہ فوراً یہ تمام چیزیں لے آئے تو آپ نے ان تمام کو آپس میں ملا دیا پھر یہ شربت پی لی تو وہ صحت یاب ہوگئے۔ اور ان میں سے بعض علماء نے کہا ہے : بیشک یہ عموم پر ہے جب یہ سرکے کے ساتھ ملایا جائے اور اسے پکایا جائے تو یہ ایسا مشروب تیار ہوگا جو ہر حال میں ہر بیماری کے لئے نفع بخش ثابت ہوگا۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : بیشک یہ خاص معنی پر ہے اور یہ ہر بیماری میں، اور ہر انسان کے لئے عام ہونے کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ یہ تو اس کے بارے خبر ہے کہ یہ اسی طرح باعث شفا ہے جس طرح اس کے علاوہ دیگر ادویہ بعض کے لئے، بعض حالات میں باعث شفا ہوتی ہیں، پس آیت کا فائدہ اس کے بارے یہ خبر دینا ہے کہ یہ دوا ہے کیونکہ اس کے ساتھ اکثر شفا ہوجاتی ہے۔ اور یہ مشروبات اور معجونوں میں سے دیگر ادویہ کے لئے یہ جزا اور ان کا معاون ہوگیا اور یہ کوئی پہلا لفظ نہیں ہے جسے خاص کیا گیا ہے بلکہ قرآن اس سے بھرا پڑا ہے اور لغت عرب میں بہت سے عام بمعنی خاص اور خاص بمعنی عام آتے ہیں۔ اور جو چیز اس پر دلا لت کرتی ہے کہ یہ اپنے عموم پر نہیں ہے وہ یہ کہ سفا نکرہ سیاق اثبات میں ہے، اور اس میں عموم نہیں ہوتا اس پر اہل زبان، محققین اہل علم، اور مختلف اہل اصول کا اتفاق ہے، لیکن اسے اہل الصدق والعزم میں سے ایک گروہ نے عموم پر محمول کیا ہے، پس وہ ہر قسم کے دردوں اور بیماریوں سے شہد کے ساتھ شفا حاصل کرتے ہیں، اور وہ اپنی بیماریوں سے قرآن کریم کی برکت اور تصدیق وایقان کی صحت کے ساتھ شفا پاتے ہیں۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : وہ جس کی نیت کمزور ہو اور اس کی عادت دین پر غالب ہو تو اس نے اس کا مفہوم اطباء کے قول کے مطابق لیا ہے، اور یہ سب اسی حکیم کی حکمت میں سے ہے جو وہ سب کچھ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5: اگر کوئی کہنے والا کہے : ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جنہیں شہد نفع دیتا ہے اور وہ بھی جنہیں یہ نقصان اور ضرر دیتا ہے، تو پھر یہ لوگوں کے لئے شفا کیسے ہوسکتا ہے ؟ تو اسے کہا جائے گا : پانی ہر شے کے لئے حیات ہے حالانکہ ہم نے کئی دیکھے ہیں جنہیں پانی مار دیتا ہے جب وہ اسے اس حال میں استعمال کریں جب ان کے بدن کی بیماری اس کی ضد اور اس کے خلاف ہو۔ اور ہم نے شہد کی شفا تو اس کے مشروبات میں سے اکثر میں دیکھی ہے ؛ یہ معنی زجاج نے بیان کیا ہے۔ اور اطباء نے اپنے سرخیل بکرۃ سے سکنجبین کے ہر بیماری میں عام نفع بخش ہونے کی مدح پر اتفاق کیا ہے۔ اور اس کی اصل شہد ہے اور اسی طرح تمام معجونین ہیں، اس بنا پر کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اس اشکال کو ختم کردیا اور احتمال کی وجہ کو دور کردیا جس وقت آپ نے اس آدمی کے لئے شہد پینے کا حکم ارشاد فرمایا جو اپنے پیٹ میں بیماری کی شکایت کرتا ہے، سو جب اس کے بھائی نے آپ کو عرض کی کہ اسے استطلاق بطن (پیٹ کھلنے کی بیماری) میں اضافہ ہوگیا ہے تو آپ نے اسے دوبارہ یہی مشروب پینے کا حکم دیا تو وہ صحت یاب ہوگیا اور آپ نے فرمایا : صدق اللہ وکذب بطن أخیک (اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ بولا ہے) ۔ مسئلہ نمبر 6: بعض زندیق اطباء نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے : تحقیق اطباء کا اس پر اجماع ہے کہ شہد دست لاتا ہے (پیٹ کر نرم کرتا ہے) تو پھر یہ اس کے لئے کیسے مفید ہو سکتا ہے جسے پہلے ہی اسہال کی بیماری ہو، تو جواب یہ ہے کہ وہ قول اس کے لئے فی نفسہ حق ہے جس کو حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تصدیق حاصل ہوچکی ہے، اور وہ اسے اسی طریقہ پر استعمال کرتا ہے جو آپ نے معین فرمایا ہے اور یہ وہ محل ہے جس میں آپ نے اسے نیت اور حسن ضمیر کا اظہار کرنے کا حکم دیا ہے، تو وہ اس کی منفعت اور فوائد دیکھ لے گا اور اس کی برکت پا لے گا، جیسا کہ اس شہد والے اور اس کے سوا دوسروں کو اتفاق ہوا ہے جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اور رہا یہ کہ اس پر اجماع بیان کیا گیا ہے تو یہ ان کی جہالت پر نقلی دلیل ہے اس حیثیت سے کہ انہوں نے اسے مقید نہیں کیا بلکہ مطلق کہا ہے۔ امام عبد اللہ مازری نے کہا ہے : یہ جان لینا چاہئے کہ اسہال کا عارضہ کثیر وجوہ سے ہو سکتا ہے، ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ بدہضمی اور ہیضہ کی وجہ سے دست شروع ہوجاتے ہیں، تو اسکی مثل میں تمام اطباء کا اس پر اجماع ہے کہ اس کا علاج یہ ہے کہ طبیعت اور اس کے فعل کو (اپنے حال پر) چھوڑ دیا جائے اور اگر اسہال کی معاون دوا کی ضرورت ہو تو وہ استعمال کی جائے جب تک قوت باقی ہو، کیونکہ انہیں روکنا نقصان دہ ہے، تو جب یہ واضح ہوگیا تو پھر ہم کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے اس آدمی کو اسہال کی بیماری پیٹ (میں ہوا) بھرنے اور ہیضہ کے سبب لگی ہو تو آپ ﷺ نے اسے شہد پینے کا حکم ارشاد فرمایا ہو پس وہ زیادہ ہوگئے یہاں تک کہ وہ مادہ ختم ہوگیا اور اسہال رک گئے تو نتیجہً شہد کا پینا اس کیلئے موافق اور نفع بخش ثابت ہوا، پس جب یہ بات طب کی صناعت سے نکلی ہے تو اس نے معترض کے اس صناعت سے جاہل اور ناواقف ہونے سے بھی آگاہ کردیا۔ فرمایا : ہم ایسے نہیں کہ ہم حضور نبی مکرم ﷺ کے قول پر یقین کریں اس لئے کہ اطباء آپ کی تصدیق کرتے ہیں (نہیں) بلکہ اگر وہ آپ کو جھٹلا دیں تو یقیناً انہیں جھٹلا دیں گے اور یقیناً ہم ان کا انکار کردیں گے اور آپ ﷺ کی تصدیق کریں گے۔ پس اگر ہم نے ان کے قول کی صحت کو مشاہدہ کے ساتھ پالیا تو اس وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے کلام کی تاویل اور اس معنی پر اس معنی پر اس کی تخریج کے محتاج ہوں گے جس پر وہ صحیح ہوسکتا ہے جبکہ اس پر دلائل موجود ہیں کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے۔ مسئلہ نمبر 7: فی قولہ تعالیٰ : فیہ شفآء للناس اس میں دوا وغیرہ پینے کے ساتھ علاج کرنے کے جواز پر دلیل ہے بخلاف ان اجل علماء کے جنہوں نے اسے ناپسند کیا ہے، اور وہ ان صوفیہ کے طریقہ پر ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ ولایت مکمل نہیں ہوتی مگر تب جب بندہ اس سب کے ساتھ راضی ہو جو اس پر مصیبت اور تکلیف وغیرہ نازل ہو، اور اس کے لئے علاج جائز نہیں ہے۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جنہوں نے اس کا انکار کیا ہے، صحیح میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ہر بیماری کے لئے دوا ہے پس جب بیماری کی دوا استعمال کی جائے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے وہ شفا یاب ہوجاتا ہے “۔ ابوداؤد اور ترمذی نے حضرت اسامہ بن شریک سے روایت نقل کی ہے انہوں نے بیان کیا : اعرابیوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا ہم علاج نہ کریں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیوں نہیں۔ اے اللہ کے بندو ! تم علاج کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر اس کے لئے شفا یا دوا بھی رکھی ہے سوائے ایک بیماری کے “۔ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ وہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” بڑھاپا “۔ یہ الفاظ ترمذی کے ہیں، اور انہوں نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور ابو خزیمہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ کا دم کے بارے کیا خیال ہے جو ہم کراتے ہیں، اور دوا کے بارے جس کے ساتھ ہم علاج کرتے ہیں، اور وہ پرہیز اور احتیاط جسے ہم اپناتے ہیں، کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں سے کسی شے کو رد کردیتی ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں سے ہے “ (امام ترمذی نے) فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ اس حدیث کے سوا ابو خزیمہ سے کوئی حدیث معروف نہیں۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگر تمہاری دواؤں اور علاج میں سے کسی شی میں خیر اور بھلائی ہے تو وہ پچھنے لگانے یا شہد پینے یا آگ کے ساتھ جلانے کی شرط میں ہے اور میں داغ لگانا پسند نہیں کرتا “۔ اسے صحیح نے نقل کیا ہے۔ اور اس باب میں احادیث شمار سے زیادہ ہیں۔ اور جمہور علماء کا موقف یہی ہے کہ علاج کرنا اور دم کرانا مباح ہے۔ روایت کا ک گیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ لقوہ کی وجہ سے داغ لگاتے اور بچھو کے ڈسنے کا دم فرماتے۔ ابن سیرین سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اپنے بچے کو تریاق پلاتے۔ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : اس کا کوئی حرج نہیں ہے۔ اور جنہوں نے اسے (علاج کو) مکروہ قرار دیا ہے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے استدلال کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ایک گروہ اپنے چھوٹے بڑوں سمیت اکٹھا جنت میں داخل ہوگا وہ تعویذ گنڈہ نہیں کراتے ہیں، نہ وہ داغ لگواتے ہیں، اور نہ وہ فال پکڑتے ہیں، اور صرف اپنے رب پر توکل کرتے ہیں “۔ انہوں نے کہا ہے : پس مومن پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو لازم پکڑتے ہوئے، اس پر توکل کرتے ہوئے، اس پر اعتماد کرتے ہوئے، اور ہر شے سے کٹ کر اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے اسے چھوڑ دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایام مرض اور ایام صحت تمام کو جانتا ہے پس اگر مخلوق اس میں کمی کرنے یا زیادتی کرنے کی حریص ہو تو وہ اس پر قادر نہیں، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتب من قبل ان نبراھا (الحدید : 22) (نہیں آئی کوئی مصیبت زمین پر اور یہ تمہاری جانوں پر مگر وہ لکھی ہوئی ہے کتاب میں اس سے پہلے کہ ہم ان کو پیدا کریں) ۔ اور ان میں سے جو اس طرف گئے ہیں وہ اہل فضل و اثر کی ایک جماعت ہے، اور یہی حضرت ابن مسعود اور حضرت ابو درداء ؓ کا قول ہے۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ حضرت ابن مسعود ؓ کی عیادت کیلئے اس بیماری کے دوران تشریف لے گئے جس میں ان کا وصال ہوا تو حضرت عثمان ؓ نے پوچھا : تم کیا تکلیف پا رہے ہو ؟ انہوں نے کہا میرے گناہ (باعث تکلیف ہیں) ۔ آپ نے پوچھا : تم کیا چاہتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : اپنے رب کی رحمت، انہوں نے فرمایا : کیا میں تمہارے لئے کوئی طبیب نہ بلاؤں ؟ تو انہوں نے کہا : طبیب نے ہی تو مجھے بیمار کیا ہے۔ اور آگے حدیث ذکر کی۔ مکمل روایت سورة واقعہ کے فضائل میں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور وکیع نے ذکر کیا ہے : ابو ہلال نے معاویہ بن قرۃ سے ہمیں بیان کیا ہے انہوں نے کہا : حضرت ابو درداء ؓ بیمار ہوئے تو وہ ان کی عیادت کو گئے اور کہا : کیا ہم آپ کیلئے کوئی حکیم نہ بلائیں ؟ انہوں نے جواب دیا : طبیب نے ہی تو مجھے لٹا رکھا ہے۔ اور اسی طرف ربیع بن خیثم بھی گئے ہیں۔ اور سعید بن جبیر نے بھی تعویز، منتر کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور حسن دودھ اور شہد کے سوا تمام ادویہ پینا مکروہ جانتے تھے۔ اور پہلے فریق نے حدیث کا جواب دیا ہے کہ اس میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے، کیونکہ اس میں یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ داغ لگانے کی کسی خاص نوع کا ارادہ کرنا مکروہ ہو، دلیل یہ ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے جنگ احزاب کے دوران ابی کو زگ اکحل پر داغ لگایا جب انہیں تیر مارا گیا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” شفا تین میں ہے “۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور اسی طرح یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے منتر اور تعویذوں کا قصد مراد ہو جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا : وننزل من القرآن ما ھو شفآء (الاسراء : 82) (اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن میں وہ چیزیں جو (باعث) شفا ہیں) ۔ جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو دم فرمایا اور انہیں دم کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 8: امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شہد میں زکوٰۃ نہیں ہے اگرچہ یہ کھایا بھی جاتا ہے اور خوراک بھی ہے۔ اور اس میں امام شافعی (رح) کا قول مختلف ہے، اور اپنے نئے قول میں انہوں نے جو قطعی بات کی ہے وہ یہ ہے کہ اسمیں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے کہ شہد میں زکوٰۃ واجب ہے چاہے اس کی مقدار قلیل ہو یا کثیر، کیونکہ آپ کے نزدیک اس میں نصاب شرط نہیں ہے۔ اور امام محمد بن حسن (رح) تعالیٰ نے کہا ہے : اس میں کوئی شے نہیں ہے یہاں تک کہ یہ آٹھ افراق تک پہنچ جائے اور ایک فرق میں چھتیس رطل عراقی ہوتے ہیں۔ اور امام ابو یوسف (رح) نے کہا ہے : ہر دس مشکیزوں میں سے ایک مشکیزہ، اور انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے ترمذی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” شہد کے ہر دس مشکیزوں میں سے ایک مشکیزہ ہے “۔ ابو عیسیٰ نے کہا ہے : اس کی اسناد میں کلام ہے، حضور نبی مکرم ﷺ سے اس باب میں کوئی بڑی شے صحیح منقول نہیں ہے، اور اسی پر اکثر اہل علم کے نزدیک عمل ہے، اور یہی امام احمد اور اسحاق بھی کہتے ہیں، اور بعض اہل علم نے کہا ہے : شہد میں کوئی شی نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 9: قولہ تعالیٰ : ان فی ذلک لایۃ لقوم یتفکرون بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں یعنی عبرت حاصل کرتے ہیں اور شہد کی مکھی میں عبرت سے مراد اس کے عجیب معاملہ میں انصاف کی نظر سے اور گہری غوروفکر کرتے ہوئے دیکھنا ہے، تو یقین شہادت دیتا ہے کہ اسے کمزور اور ضعیف بنیاد کے باوجود لطیف صنعت کا الہام کرنے والا، اور اس کے متفرق احوال میں اسے حیلہ سازی کی مہارت عطا کرنے والا وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے ؛ جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا : واوحی ربک الی النحل الآیہ۔ پھر یہ کٹھا، کڑوا، میٹھا، نمکین (رس) ، اور نقصان دہ گھاس وغیرہ سبھی چوستی ہے، اور اللہ تعالیٰ اسے شہد بنا دیتا ہے جو میٹھا بھی ہوتا ہے اور باعث شفا بھی، اور اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلیل ہے۔
Top