Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 69
ثُمَّ كُلِیْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِیْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا١ؕ یَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
ثُمَّ : پھر كُلِيْ : کھا مِنْ : سے۔ کے كُلِّ الثَّمَرٰتِ : ہر قسم کے پھل فَاسْلُكِيْ : پھر چل سُبُلَ : راستے رَبِّكِ : اپنا رب ذُلُلًا : نرم و ہموار يَخْرُجُ : نکلتی ہے مِنْ : سے بُطُوْنِهَا : ان کے پیٹ (جمع) شَرَابٌ : پینے کی ایک چیز مُّخْتَلِفٌ : مختلف اَلْوَانُهٗ : اس کے رنگ فِيْهِ : اس میں شِفَآءٌ : شفا لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّتَفَكَّرُوْنَ : سوچتے ہیں
پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوستی پھر اور اپنے پروردگار کے ٹھہرائے ہوئے طریقہ پر پوری فرمانبرداری کے ساتھ گامزن ہوجا اس کے پیٹ سے مختلف رنگتوں کا رس نکلتا ہے اس میں انسان کیلئے شفا ہے ، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے ایک نشانی ہے جو غور و فکر کرنے والے ہیں
شہد کی مکھی سے کہا جا رہا ہے پھولوں سے رس چوس کر اپنے کارخانہ میں شکر پیدا کر : 79۔ قرآن کریم کے الفاظ پر غور کرو کس طرح یہ معاملہ کے دقائق واضح کردیتے ہیں ؟ چونکہ شہد کی مکھی کی یہ صنعت گری جدوجہد ‘ نظم وانضباط اور سرگرمی اور باقاعدگی کا ایک پورا سلسلہ ہے جو ایک عرصہ تک جاری رہتا ہے اور یکے بعد دیگرے بہت سی منزلوں سے گزر کر مکمل ہوتا ہے اس لئے اس کے کاموں کو (سبل) سے تعبیر کیا یعنی عمل کی راہوں سے جیسا کہ ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” فاسلکی سبل ربک “۔ اور پھر چونکہ اس بات پر توجہ دلانا مقصود تھا کہ جو راہ عمل ٹھہرا دی گئی ہے اس پر ٹھیک ٹھیک چلتی رہتی ہے کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ ذرا بھی ادھر ادھر ہو اس لئے فرمایا (آیت) ” ذللا “۔ کہ حکم الہی کے آگے جھکی ہوئی کام کئے جا ۔ چناچہ اس کا ہر فرد اس طرح حکم الہی کے آگ جھک گیا ہے کہ ممکن نہیں کسی کو راہ عمل سے منحرف ہوتا ہوا پاؤ ۔ ” وحی “ مخفی اشارہ کو کہتے ہیں اور اس جگہ لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے ، فرمایا یہ ربوبیت الہی کی وحی ہے جو تمام مخلوقات کو ان کے کاموں پر لگاتی ہے اور جس نے ایک حقیر سے جانور میں سعی وعمل کی ایک حیرت انگیز قوت پیدا کردی ہے ، ان مکھیوں کا چھتا بھی صنعت وکاری گری کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہوتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص مہندس یا انجینئر نے اس کو تیار کیا ہے ، ماہرین نفسیات جس چیز کو جبلت سے تعبیر کرتے ہیں وہ وحی حیوانی کا دوسرا نام ہے اور علامہ راغب نے اس مفہوم کو ” تسخیر “ سے ادا کیا ہے النحل یعنی شہد کی مکھی اپنی خاص قسم کی فراست و دانائی اور عقل و توانائی کے لحاظ سے ساری حیوانی دنیا میں مشہور وممتاز ہے ۔ فرنگی ماہرین فن نے کتابوں پر کتابیں ان مکھیوں کی فراست و دانائی اور حسن انتظام وتدبیر پر لکھ دی ہیں ۔۔۔۔۔۔ حق تھا کہ اس ننھی سی مخلوق کی ذہانت خاصہ کو وحی الہی اپنی جانب منسوب کرتی اور اس نے ایسا ہی کیا۔ یہ مٹھاس کہاں سے پیدا ہوئی ؟ قرآن کریم نے فرمایا کہ ” سارے پھلوں سے رس چوس لے اور اس کو کھا جا اس طرح تیرے پیٹ کے اندر سے ایک پینے کی چیز نکلے گی اس کو محفوظ کرتی چلی جا۔ “ اس کے مقابلہ کی کوئی چیز اتنی میٹھی نہیں ہے جتنی کہ یہ شہد ہے ، یاد رکھو کہ جس وقت تک ہندوستان کا گنا دوسرے ملکوں میں نہیں پہنچا تھا میٹھی غذاؤں کے بنانے کا تمام تر دارومدار اسی شہد پر تھا یا پھر ایسے پھلوں پر جو بہت زیادہ میٹھے ہوتے ہیں جیسے کھجور اور چقندر ۔ سکندر اعظم جب ہندوستان آیا تھا اور یونانیوں نے یہاں کی قند کھائی تھی تو خایل کیا تھا کہ یہ بلور کی طرح کوئی معدنی چیز ہے جس کا مزہ شہد کی میٹھا ہوتا ہے ۔ غالبا سب سے پہلے عربوں نے ہندوستانی گنے کی کاشت مصر میں کی اور پھر مصر سے ” مصری “ یورپ میں پہنچی ۔ اس جگہ شہد کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لئے کیا گیا کہ دنیا کے اکثر حصوں میں مٹھاس کا مادہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھا نیز یہ محض لذیذ غذا ہی نہیں بلکہ کتنی ہی بیماریوں کا نسخہ وشفا بھی ہے اس کے مختلف رنگ آج بھی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں اور مختلف موسموں کے شہد کے فوائد مختلف اور مزے بھی مختلف ہیں۔ قرآن کریم نے (آیت) ” فیہ شفاء للناس “۔ کے الفاظ استعمال کرکے ریسرچ کے مختلف ابواب کھول دیئے ہیں ، اغیار نے اس میں بہت حصہ لیا ہے اور وہ کافی حد تک اس پر مقالے تحریر کرچکے ہیں اور ابھی کتنی ہی اس میں گنجائش موجود ہے ، شہد کا ایک خاصہ یہ ہے کہ یہ ایک مدت تک نہ خود خراب ہوتی ہے اگرچہ مزا میں فرق آجاتا ہے اور جو چیز اس میں ڈال دی جائے اس کو بھی محفوظ رکھتی ہے اور کافی مدت تک خراب نہیں ہونے دیتی خصوصا جتنی چیزیں مٹھاس کے لئے مصنوعی تیار کی گئی ہیں ان میں اس کی عمر سب سے زیادہ ہے اس وقت خالص شہد کا ملنا محال نہیں تو بہرحال مشکل ضرور ہے اور وہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا خالص دودھ یا خالص گھی اور اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے جو نشانیاں رکھی گئی ہیں وہ ان ساری باتوں سے علاوہ ہیں جو اوپر بیان کی گئیں چیونٹیاں ‘ دیمک اور شہد کی مکھیاں تینوں ہی اپنے اندر بہت سے اسباق رکھتی ہیں اور خوصا نظم وضبط میں ان کا بہت بڑا دخل ہے اور تلاش کرنے والوں کو ان میں سے بہت کچھ حاصل ہوا اور ابھی بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے ۔
Top