Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 174
فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌ١ۙ وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ
فَانْقَلَبُوْا : پھر وہ لوٹے بِنِعْمَةٍ : نعمت کے ساتھ مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَفَضْلٍ : اور فضل لَّمْ يَمْسَسْھُمْ : انہیں نہیں پہنچی سُوْٓءٌ : کوئی برائی وَّاتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی رِضْوَانَ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَظِيْمٍ : بڑا
پھر وہ خدا کی نعمتوں اور اس کے فضل کے ساتھ (خوش وخرم) واپس آئے ان کو کسی طرح کا ضرر نہ پہنچا۔ اور وہ خدا کی خوشنودی کے تابع رہے۔ اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے
فانقلبوا بنعمۃ من اللہ پس وہ لوٹ آئے اللہ کی نعمت کے ساتھ یعنی ایمان ‘ عافیت ‘ مال اور عزت کے ساتھ جس کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکلے تھے۔ و فضل اور لوٹ آئے زیادتی کے ساتھ یعنی ثواب کی زیادتی سے ایمان میں ترقی ہوئی اور تجارتی نفع سے مال میں زیادتی ہوئی اور دشمن کی بزدلی سے عزت میں اضافہ ہوا۔ مال کی زیادتی کا تصور اسی وقت ہوسکتا ہے جب غزوہ بدر صغریٰ مراد لیاجائے کیونکہ وہیں پر مسلمانوں نے بازار لگایا اور تجارت کی اور نفع کمایا تھا غزوہ حمراء الاسد میں کوئی تجارت نہیں ہوئی۔ لم یمسسھم سوء کسی دکھ نے ان کو چھوا بھی نہیں۔ یعنی کسی حالت میں کوئی دکھ ان کو نہیں پہنچا نہ زخمی ہونے کا نہ قتل ہونے کا نہ لوٹے جانے کا۔ واتبعوا رضوان اللہ اور وہ اللہ کی خوشنودی (کے راستہ) پر چلے جس پر دونوں جہان کی بھلائی موقوف ہے۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے کہا تھا کیا یہ جہاد ہوگا ؟ اس پر اللہ نے ان کو جہاد کا ثواب عطا فرمایا اور ان سے راضی ہوا۔ وا اللہ ذوفضل عظیم اور اللہ بڑے فضل والا ہے اس میں ان لوگوں کے لیے پیام حسرت ہے جو جہاد میں شریک نہیں ہوئے نیز ان کی غلط رائے کا اظہار ہے۔
Top