Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 79
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَۙ
مَا كَانَ : نہیں لِبَشَرٍ : کسی آدمی کے لیے اَنْ : کہ يُّؤْتِيَهُ : اسے عطا کرے اللّٰهُ : اللہ الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحُكْمَ : اور حکمت وَالنُّبُوَّةَ : اور نبوت ثُمَّ : پھر يَقُوْلَ : وہ کہے لِلنَّاسِ : لوگوں کو كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ عِبَادًا : بندے لِّيْ : میرے مِنْ دُوْنِ : سوا (بجائے) اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنْ : اور لیکن كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ رَبّٰنِيّٖنَ : اللہ والے بِمَا : اس لیے کہ كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ : تم سکھاتے ہو الْكِتٰبَ : کتاب وَبِمَا : اور اس لیے كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ : تم پڑھتے ہو
کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ خدا تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ خدا کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ (اس کو یہ کہنا سزاوار ہے کہ اے اہلِ کتاب) تم (علمائے) ربانی ہو جاؤ کیونکہ تم کتابِ (خدا) پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو
مَا كَانَ لِبَشَرٍ : ابن اسحاق، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نیز دلائل میں بیہقی نے حصرت ابن عباس کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ (جب علماء یہود اور نجران کے نصاریٰ رسول اللہ کی خدمت میں جمع ہوئے اور آپ ﷺ نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو) ابو رافع قرظی (مدنی) نے رسول اللہ سے کہا محمد ﷺ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم تمہاری ایسی ہی پوجا کریں جیسے نصاریٰ عیسیٰ کی کرتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ کی پناہ کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو پوجنے کا میں حکم دوں اللہ نے اس کے لیے مجھے نہیں بھیجا نہ اس کا مجھے حکم دیا اس پر اللہ نے آیت : ما کان لبشر سے مسلمون تک نازل فرمائی۔ عبد نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ حسن بصری نے فرمایا : مجھے یہ اطلاع پہنچی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہم آپ کو اسی طرح سلام کرتے ہیں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو کرتے ہیں (آپ ﷺ کو سلام کرنے کا کوئی امتیاز نہیں) تو کیا ہم آپ ﷺ کو سجدہ نہ کیا کریں ؟ فرمایا : نہیں بلکہ اپنے نبی ﷺ کی عزت کرو اور اہل حق کا حق پہچانو۔ اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مقاتل اور ضحاک کا بیان ہے کہ نجران کے عیسائیوں نے کہا تھا کہ عیسیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم ان کو رب بنا لیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی محمد ہوں یا عیسیٰ ( علیہ السلام) کسی بشر کے لیے جائز نہیں بشر انسان کی طرح اسم جنس ہے مذکر مونث مفرد جمع سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے کبھی اس کا تثنیہ بھی آتا ہے جیسے آیت : انومن لبشرین مثلنا میں آیا ہے بشر کی جمع ابشار آتی ہے (قاموس) بغوی نے لکھا ہے کہ بشر جمع ہے اس کا اطلاق انسانوں کی جماعت پر ہوتا ہے اس لفظ سے واحد نہیں آتا جیسے قوم، جیش اور واحد کے مقام میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اَنْ يُّؤْتِيَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ : کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا کرے حکم سے مراد ہے حکمت و سنت یا حکومت۔ ثُمَّ يَقُوْلَ للنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : یقول کا عطف یُؤتی پر ہے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کی توحید کو چھوڑ کر تم میرے پرستار بن جاؤ (یعنی میری بھی پوجا کرو) اس آیت میں اشارہ ہے کہ عبادت خداوندی کا حصر صرف توحید میں ہے اگر غیر اللہ کو عبادت میں شریک کیا تو عبادت اللہ نہیں ہوسکتی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے تو عطاء کتاب و نبوت ہو اور بندہ کی طرف سے غیر اللہ کی عبادت کا حکم ہو ایسا ہونا ممکن نہیں (کوئی نبی غیر اللہ کی پوجا کا حکم نہیں دے سکتا کیونکہ) نبوت اور غیر اللہ کی عبادت کا حکم دو متضاد چیزیں ہیں اوّل دعوت توحید ہے اور دوسری دعوت شرک۔ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ : بلکہ وہ کہتا ہے کہ تم ربانی ہوجاؤ۔ یعنی احکام خداوندی کے مبلغ۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس ؓ نے ربانیین کا تفسیر ترجمہ کیا ‘ فقہا علماء۔ قتادہ نے حکماء علماء کہا۔ سعیدبن جبیر ؓ کی روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ ربانیین سے مراد ہیں فقہاء معلمین۔ عطا (رح) نے ترجمہ کیا با وقار دانشمند علماء جو اللہ کی طرف سے مخلوق کے خیر خواہ ہوں۔ سعید بن جبیر ؓ نے کہا با عمل عالم۔ ابو عبید ؓ نے کہا میں نے ایک عالم سے سنا کہ ربانی وہ شخص ہے جو حلال حرام اور امر و نہی کو جانتا ہو امت کے گذشتہ اور آئندہ احوال سے واقف ہو۔ بعض نے کہا ربانی کا درجہ حبِر سے اونچا ہے حبِر تو عالم کو کہتے ہیں اور ربانی اس عالم کو کہتے ہیں جو صاحب بصیرت بھی ہو۔ تمام اقوال کا حاصل یہ ہے کہ ربانی اس شخص کو کہتے ہیں جو علم، عمل، اخلاص اور درجات قرب میں خود بھی کامل ہو اور کامل گر بھی ہو کیونکہ رَبَّ (ماضی) یَرُبُّ (مضارع) رَبًّا (مصدر) کا معنی ہے کسی چیز کی درستی اور تکمیل کرنا۔ ربانی علم کی ترقی اور تکمیل کرتے ہیں اور متعلمین کو تربیت دیتے ہیں بڑے بڑے علوم سے پہلے چھوٹے چھوٹے علوم کی تدریجی تعلیم دیتے ہیں اسی لیے ان کو ربانی کہا جاتا ہے ایک روایت میں حضرت علی کا قول آیا ہے کہ ربانیین وہ لوگ ہیں جو اپنے اعمال سے علم کی تکمیل کرتے ہیں یہ ربان کی جمع ہے جیسے رَیَّان، عطشان یاء نسبت ملا دی گئی ہے۔ بعض نے کہا ربانی وہ شخص ہے جو رب کی طرف منسوب ہو (ا اللہ والا) الف نون کو مبالغہ کے لیے زیادہ کردیا گیا ہے (بڑا اللہ والا) جیسے لحیانی بڑی گھنی لمبی داڑھی والا اور رقبانی بڑی موٹی گردن والا اگر مبالغہ مقصود نہ ہو اور صرف لحیہ اور رقبہ کی طرف نسبت کرنی غرض ہو تو لحیی اور رقبی کہا جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی جس روز وفات ہوئی تو محمد بن حنفیہ نے فرمایا : اس امت کے ربانی کا انتقال ہوگیا۔ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ : یعنی تم ربانی ہوجاؤ اس وجہ سے کہ تم کتاب کے عالم اور معلم ہو اور ہمیشہ پڑھتے اور یاد رکھتے ہو۔ تدرسون کا معنی یہ ہے کہ ہمیشہ کتاب کو پڑھنے اور یاد رکھتے ہوے ممکن ہے کہ لوگوں کے سامنے پڑھنا یعنی لوگوں کو پڑھانا مراد ہو۔ صحاح میں ہے دَرَسَ الدَّار یعنی گھر مٹ گیا (اس کے) نشانات باقی رہ گئے۔ درس الکِتَابَ وَالْعِلْمَ کتاب کو اور علم کو پڑھا یعنی کتاب اور علم کا اثر اپنی یاد داشت میں لے لیا اور چونکہ یا دداشت ہمیشہ پڑھتے رہنے سے ہوتی ہے اس لیے ہمیشہ پڑھتے رہنے کی تعبیر لفظ درس سے کی اللہ نے فرمایا : و درسوا ما فیہ۔ و بما کنتم تدرسون حاصل مراد یہ ہے کہ چونکہ تم کتاب کو پڑھتے پڑھاتے اور جانتے سکھاتے ہو اس لیے ربانی ہوجاؤ کیونکہ جاننے کا فائدہ عمل کرنا اور اپنی اصلاح کرنا ہے اور تعلیم کی غرض دوسروں کی اصلاح ہے مگر دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح لازم ہے تاکہ آیت : لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْن اور اَتَامُرُوْنَ النَّاسَ باِلْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ کے مصداق نہ ہوجاؤ۔
Top