Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے تئیں پاکیزہ کہتے ہیں (نہیں) بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا
الم تر الی الذین یزکون انفسہم . کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کی عجیب حالت ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے پاک قرار دیتے ہیں۔ استفہام تعجب کے لئے ہے جو شخص اپنے نفس کو گناہوں سے پاک قرار دیتا ہو اس پر بڑا تعجب ہے معصومیت کا دعویٰ کرنے سے اس کا مقصد ہے دوسروں پر اپنی فوقیت اور برتری قائم کرنا لیکن برتری خود ساختہ دعوے سے حاصل نہیں ہوتی اس دعوے سے تو ایسے شخص کی دنائت اور کمینگی کا اظہار ہوتا ہے فوقیت اور گناہوں سے پاکیزگی تو اس پر موقوف ہے کہ اللہ کسی کو بزرگ و برتر اور گناہ ہونے سے پاک کر دے۔ بغوی اور ثعلبی نے کلبی کا قول لکھا ہے کہ کچھ یہودی جن میں بحری بن عمرو ‘ نعمان بن اوفی اور مرحب بن زید بھی تھے اپنے چھوٹے بچوں کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا محمد ﷺ ! کیا ان پر کوئی گناہ ہوسکتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا نہیں کہنے لگے تو ہم بھی انہی کی طرح ہیں دن میں ہم جو کچھ کرتے ہیں ان کو رات میں معاف کردیا جاتا ہے اور رات کو جو کام کرتے ہیں دن میں ان کا کفارہ ہوجاتا ہے اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ حسن ‘ ضحاک اور قتادہ (رح) کا بیان ہے کہ جب یہودیوں اور عیسائیوں نے نَحْنُ اَبْنَآء اللّٰہِ وَاَحِبَّآؤُہُ (ہم خدا کے بیٹے اور چہیتے ہیں) کہا اور یہ بھی کہ لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ الاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصَارٰی (یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ جنت میں کوئی نہیں جائے گا۔ اوّل یہودیوں کا دعویٰ تھا اور دوسرا عیسائیوں کا) تو آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ آیت کا سبب نزول اگرچہ خاص ہو مگر حکم عام حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا اہل کتاب آپس میں تزکیہ کرتے تھے یعنی ایک دوسرے کو گناہوں سے پاک کہتا تھا چناچہ طارق بن شہاب کی روایت میں حضرت ابن مسعود ؓ کا قول آیا ہے کہ بعض دیندار آدمی صبح کو اپنے گھر سے نکلتے تھے اور کسی ایسے شخص سے جا کر ملتے جس سے ان کا نہ جانی نفع نقصان وابستہ ہوتا تھا نہ ملی لیکن (اس کے منہ پر) اس کو خوش کرنے اور اس کی تعریف کرنے کے لئے کہتے تھے خدا کی قسم آپ تو ایسے ہیں ویسے ہیں نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ گھر لوٹ کر آتے تھے تو دین کا کوئی حصہ ان کے پاس باقی نہ ہوتا تھا یہ فرمانے کے بعد حضرت ابن مسعود ؓ نے آیت اَلَمْ تَرَ اِلٰی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْتلاوت فرمائی۔ مسئلہ : کسی کے لئے جائز نہیں کہ (سوائے پیغمبروں کے) کسی اور کا تزکیہ کرے اور گناہوں سے اس کو پاک قرار دے کیونکہ بغیر علم کے کوئی فیصلہ درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌہاں مؤمن کے متعلق حسن ظن رکھنے کا چونکہ حکم ہے اس لئے حسن ظن کے طور پر کسی کے پاک ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ کسی کو گناہوں سے پاک کہنے سے تو اس کے اندر غرور اور پندار پیدا ہوجاتا ہے جس کی شریعت میں ممانعت کردی گئی ہے۔ پھر یہ بات واقعی بھی ہے کہ کسی کو اللہ کا قرب اور اس کی طرف سے ثواب حاصل ہوا یا نہیں اور کتنا حاصل ہوا اس کا علم تو سوائے خدا کے کسی کو بھی نہیں۔ اسی لئے فرمایا بل اللہ یزکی . بلکہ اللہ پاک کرتا ہے یا پاک قرار دیتا ہے یعنی گناہ بخش کر پاک کردیتا ہے اور اصلاح حال کردیتا ہے۔ من یشآء . جس کو چاہتا ہے وہی پاک کردینے پر قادر ہے اور انسان کے اندرونی حالات سے وہی باخبر اور واقف ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی اور الہام کے ذریعہ سے اگر اللہ کسی کو کسی کے تزکیہ و تطہیر کی واقفیت عطا فرما دے تو اپنی یا دوسرے کی تطہیر کا فیصلہ وہ آدمی کرسکتا ہے بشرطیکہ غرور وتکبر کے طور پر نہ ہو کیونکہ پندار و غرور بڑا نفسانی عیب ہے۔ یہی مصداق ہے ان احادیث کا جن میں حضور ﷺ نے اپنے بعض خصوصی اوصاف بغیر غرور وتکبر کے فرمائے ہیں مثلاً فرمایا ہے کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور (میرا یہ قول) بطور فخر نہیں ہے۔ یہ حدیث سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ جب منافقوں نے تعریض کے طور پر حضور ﷺ : کو تقسیم میں غیر منصف قرار دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم میرے بعد تم کو اپنے لئے مجھ سے زیادہ کوئی عادل نہیں ملے گا۔ یہ حدیث طبرانی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اور امام احمد نے حضرت ابو سعید ؓ کی روایت سے بیان کی ہے۔ ایک اور حدیث میں حضور ﷺ والا نے فرمایا ابوبکر ؓ اور عمر ؓ متوسط عمر والے جنتیوں کے سردار ہیں اور حسن ؓ و حسین ؓ جوان جنتیوں کے سردار ہیں اور فاطمہ ؓ اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ اولیاء کرام نے بھی بحکم الٰہامی اسی طرح کے بعض کلام کہے مثلاً حضرت غوث اعظم (رح) کا قول ہے کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔ ولا یظلمون . اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یعنی اللہ جن کا تزکیہ کرنا چاہتا ہے ان کو ان کی پاکی کے مطابق ثواب ملے گا ان کے ثواب میں کمی نہیں کی جائے گی۔ یا یہ مطلب ہے کہ گناہوں سے تطہیر کے سلسلہ میں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا جو تطہیر کا اہل ہوتا ہے اللہ اس کی تطہیر کرتا ہے اور جو تطہیر کے لائق نہیں ہوتا صرف اسی کی تطہیر نہیں کرتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ اپنے نفوس کو پاک کہتے ہیں ان کے جرم کے موافق سزا دی جائے گی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ فتیلا . ادنیٰ ظلم۔ لغت میں فتیل (بٹا ہوا) وہ دھاگہ یا میل کی بتی ہے جو آدمی دو انگلیوں کے درمیان بٹتا ہے کسی حقیر چیز کی تمثیل بیان کرنے کے لئے اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔ کذا فی الصحاح۔ بعض اہل لغت نے لکھا ہے کہ کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں جو ریشہ یا سونتا ہوتا ہے اس کو فتیل کہتے ہیں گویا مطلب یہ ہوگا کہ فتیل برابر ادنیٰ ظلم بھی ان پر نہیں کیا جائے گا۔
Top