Al-Qurtubi - Al-Qasas : 7
وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ١ؕ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ
وَتَحْمِلُ : اور وہ اٹھاتے ہیں اَثْقَالَكُمْ : تمہارے بوجھ اِلٰى : طرف بَلَدٍ : شہر (جمع) لَّمْ تَكُوْنُوْا : نہ تھے تم بٰلِغِيْهِ : ان تک پہنچنے والے اِلَّا : بغیر بِشِقِّ : ہلکان کر کے الْاَنْفُسِ : جانیں اِنَّ : بیشک رَبَّكُمْ : تمہارا رب لَرَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور (دور دراز) شہروں میں جہاں تم زحمت شاقہ کے بغیر پہنچ نہیں سکتے وہ تمہارے بوجھ اٹھا کرلے جاتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارے پروردگار نہایت شفقت والا مہربان ہے۔
آیت نمبر 7 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : و تحمل اثقالکم، الأثقال سے مراد لوگوں کے بوجھ ہیں مثلاً سازو سامان، اور اناج وغیرہ۔ اور یہی وہ ہے جسے اٹھانا انسان پر بھاری اور بوجھل ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ان کے بدن ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : واخرجت الارض اثقالھا۔ (الزلزلہ) (اور باہر پھینک دے گی زمین اپنے بوجھوں (یعنی دفینوں) کو) اور عکرمہ کے قول کے مطابق البلد سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ عموم پر محمول ہے ہر اس شہر کے بارے میں جس کے لئے خشکی کا راستہ ہے۔ اور شق الانفس سے مراد ان کی مشقت اور ان کی غایۃ جھد ہے۔ قرأت عامہ شین کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ جوہری نے کہا ہے : الشق کا معنی مشقت ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : لم تکونوا بلغیہ الا بشق الانفس اور یہ کبھی مفتوح ہوتا ہے، اسے ابو عبیدہ نے بیان کیا ہے۔ مہدوی نے کہا ہے : شق میں شین کے کسرہ اور اس کے فتحہ دونوں باہم متقارب ہیں، اور دونوں مشقت کے معنی میں ہیں اور یہ الشق فی العصاو نحوھا سے ماخوذ ہے۔ (ڈنڈے میں مشقت ہے) کیونکہ اس سے انسان سے پائی جانے والی مشقت کی مثل مشقت پائی جاتی ہے۔ اور ثعلبی (رح) نے کہا ہے : ابو جعفر نے الا بشق الانفس پڑھا ہے اور یہ دونوں لغتیں ہیں، مثلا رق و رق اور جص وجص اور رطل ورطل ہیں۔ اور شاعر کا قول شین کے کسرہ اور اسکے فتحہ دونوں کے ساتھ آتا ہے : وذی إبل یسعی ویحسبھا لہ أخی نصب من شقھا ودؤوب اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ مصدر کے معنی میں ہو، یہ شققت علیہ أشق شقا (میں نے اسے مشقت میں ڈال دیا) سے ماخوذ ہے۔ اور الشق کسرہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی نصف بھی ہے، کہا جاتا ہے : أخذت شق الشاۃ شقۃ الشاۃ۔ (میں نے بکری کا نصف لیا) اور کبھی آیت سے یہ معنی مراد ہوتا ہے، یعنی تم اس تک پہنچنے والے نہیں ہو مگر قوت کے نقصان کے ساتھ اور اس سے نصف ختم کرنے کے ساتھ، یعنی تم اس تک نہیں پہنچ سکتے مگر اپنی نصف قوت کے ساتھ اور دوسرا نصف ختم کرنے کے ساتھ اور الشق کا معنی پہاڑ کا کنارہ بھی ہے۔ اور ام زرع کی حدیث میں ہے : وجدنی اہل غنیمہ بشق (اس نے مجھے پہاڑ کے کنارے اہل غنیمہ میں پالیا) ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے : یہ جگہ کا نام ہے۔ اور الشق کا معنی الشقیق بھی ہے، کہا جاتا ہے : ھو أخی وشق نفسی (وہ میرا بھائی ہے اور میری جان کا حصہ ہے) ۔ اور شق عرب کے کاہنوں میں سے ایک کاہن کا نام ہے۔ اور الشق کا معنی الجانب (طرف) بھی ہے۔ اور اس معنی میں امرء القیس کا قول ہے : إذا ما بکی من خلفھا انصرفت لہ بشق و تحتی شقھا لم یحول پس یہ لفظ کئی معنوں میں مشترک ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عمومی جانوروں کے ساتھ احسان فرمایا ہے، لیکن یہاں بوجھ اٹھانے میں صرف اونٹ کے ذکر کو تمام جانوروں پر فوقیت اور خصوصیت دی ہے، کیونکہ بکریاں چرنے کے لئے جانے اور ذبح کے لئے ہیں، اور گائیں ہل جوتنے کے لئے ہیں، اور اونٹ بوجھ اٹھانے کے لئے ہیں۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اس اثنا میں کہ ایک آدمی اپنی گائے بانک کرلے جا رہا تھا اور اس نے اس پر بوجھ لاد دیا تو وہ گائے اس کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا : بلاشبہ مجھے اس کے لئے نہیں پیدا کیا گیا بلکہ مجھے تو ہل جوتنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو لوگوں نے تعجب اور گھبراہٹ کی حالت میں کہا : سبحان اللہ ؟ کیا یہ گائے باتیں کر رہی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بیشک میں، ابوبکر اور عمر اسکی تصدیق کرتے ہیں “۔ تو یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ گائے پر نہ بوجھ لادا جاسکتا ہے اور نہ اس پر سوار ہوا جاسکتا ہے، بلکہ وہ ہل جوتنے کے لئے، کھانے کے لئے، نسل کشی کے لئے اور دودھ دینے کے لئے ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اس آیت میں اس پر دلیل موجود ہے کہ جانوروں کے ساتھ سفر کرنا اور ان پر بوجھ لادنا جائز ہے، لیکن اتنی مقدار میں جسے وہ برداشت کرسکتے ہوں، بوجھ حد سے بڑھا ہو انہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ چال میں نرمی ہو۔ تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ نے ان کے ساتھ نرمی برتنے، انہیں راحت اور سکون پہنچانے اور ان کے چارے اور ان کے پانی کو تلاش کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ امام مسلم (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث روایت کی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب تم خوشحالی (اور شادابی) میں سفر کرو تو اپنے اونٹ کو زمین سے اس کا حصہ دو (یعنی اسے چرنے دو ) اور جب تم قحط سالی میں سفر کرو تو پھر اسے اس کی منزل پر پہنچانے میں جلدی کرو “۔ اسے امام مالک (رح) نے موطا میں ابو عبید سے اور انہوں نے خالد بن معدان سے روایت کیا ہے۔ اور معاویہ بن قرہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابو الدرداء ؓ کا ایک اونٹ تھا اس کو ومون کہا جاتا تھا، تو آپ اسے کہتے تھے : اے دمون ! تو اپنے رب کے پاس میرے ساتھ جھگڑا نہ کرنا۔ پس جانور تو گونگے (بےزبان) ہیں یہ اس کی قدرت نہیں رکھتے کہ وہ بذات خود اس شے کا حیلہ کریں جس کے وہ محتاج ہوتے ہیں، اور نہ وہ قدرت رکھتے ہیں کہ وہ اپنی حاجات کو کھلے بیان کرسکیں، پس جس نے ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا پھر اس نے ان کی ضروریات و حاجات کو ضائع کردیا تو اس نے شکر ضائع کردیا اور خصومت کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی پیشی ہوگی۔ اور مطربن محمد نے بیان کیا ہے، ابو داؤد نے ہمیں بیان کیا اس نے کہا ہمیں ابن خالد نے بیان کیا اس نے کہا ہمیں مسیب بن آدم نے بیان کیا اس نے کہا : میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو دیکھا آپ نے ایک ساربان کو مارا اور فرمایا : تو اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لادتا ہے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا ؟
Top