Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 33
یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ١ۚ مَا لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ
يَوْمَ تُوَلُّوْنَ : جس دن۔ تم پھر جاؤگے (بھاگوگے) مُدْبِرِيْنَ ۚ : پیٹھ پھیر کر مَا لَكُمْ : نہیں تمہارے لئے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے مِنْ عَاصِمٍ ۚ : کوئی بچانے والا وَمَنْ : اور جس کو يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اسکے لئے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
جس دن تم پیٹھ پھیر کر (قیامت کے دن سے) بھاگو گے (اس دن) تم کو کوئی (عذاب) خدا سے بچانے والا نہ ہوگا۔ اور جس شخص کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں
یوم تولون مدبرین مالکم من اللہ من عاصم ومن یضلل اللہ فما لہ من ھاد جس روز کہ (کثرت سے) پکار مچی ہوگی ‘ جس روز کہ (موقف حساب سے) پشت پھیر کر (دوزخ کی طرف) تم لوٹو گے (اس روز) اللہ کے عذاب کے تم کو کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور جس کو اللہ ہی گمراہ کر دے ‘ اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ مجاہد نے کہا : یعنی بھاگ رہے ہو گے ‘ لیکن چھوٹ نہ سکو گے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک اس دن سے مراد ہے نفخۂ بےہوشی سے پہلے نفخۂ فزع کا دن (یعنی پہلی بار صور پھونکے جانے کا دن جب صور کی آواز سن کر لوگ گھبرا جائیں گے ‘ اس کے بعد نفخۂ ضعق ہوگا کہ صور کی آواز سے لوگ بےہوش جائیں گے اور مرجائیں گے) ابن جریر نے المطولات میں اور ابویعلیٰ نے مسند میں اور بیہقی نے البعث میں اور ابو الشیخ نے کتاب العظمۃ میں اور عبد بن حمید نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کی یاک طویل حدیث بیان کی ہے جس میں تین بار صور پھونکے جانے کا ذکر آیا ہے ‘ حضور گرام ﷺ نے فرمایا : اللہ اسرافیل کو پہلی بار صور پھونکنے کا ہم دے گا اور فرمائے گا : گھبراہٹ (پیدا کرنے) والی پھونک مار۔ حسب الحکم اسرافیل صور پھونکے گا ‘ جس کی آواز سے آسمانوں والے اور زمین والے گھبرا جائیں گے ‘ ہاں جس کو اللہ چاہے گا (گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا) اسرافیل صور کی پھونک کو برابر کھینچتا اور لمبا کرتا جائے گا ‘ بیچ میں سلسلہ منقطع نہیں کرے گا یعنی دم نہ لے گا ‘ یہاں تک کہ دودھ پلانے والیاں دودھ پیتے بچوں سے غافل ہوجائیں گی اور حاملہ کا حمل ساقط ہوجائے گا اور بچوں کے بال (شدت خوف سے) سفید ہوجائیں گے اور شیطان گھبراہٹ کی وجہ سے اڑے اڑے بھاگتے پھریں گے ‘ جب زمین کے کناروں پر پہنچیں گے تو ملائکہ ان کے چہروں پر ضرب رسید کریں گے اور لوٹا دیں گے ‘ لوگ پشت پھیر کر بھاگیں گے اور آپس میں پکار مچی ہوگی ‘ یہی ہو دن ہوگا جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے : ” یوم التناد “۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک یوم التناد سے قیامت کا دن مراد ہے جبکہ آدمیوں کے ہر گروہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ پکارا جائے گا۔ ابونعیم نے بیان کیا کہ ابو حازم اعرج نے اپنے نفس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : اعرج ! قیامت کے دن ندا دی جائے گی : اے فلاں فلاں گناہ کرنے والو ! یہ ندا سن کر تو ان خطاکاروں کے ساتھ جا کھڑا ہوگا ‘ پھر ندا ہوگی : اے فلاں فلاں گناہ کرنے والو ! یہ لوگ پہلے خطاکاروں سے الگ دوسری قسم کے گناہگار ہوں گے ‘ یہ سن کر تو ان گناہگاروں کے ساتھ جا کھڑا ہوگا۔ اے اعرج ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تو ہر قسم کے گناہگاروں میں شامل ہو کر کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ ابن ابی عاصم نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا دے گا : اے اللہ کے حریفو ! (یعنی فرقۂ قدریہ والو ! جو انسان کو اپنے افعال کا خود خالق قرار دیتے تھے ‘ گویا اس طرح وہ اللہ کے حریف اور مقابل قرار پائے۔ مترجم) اس وقت جنت والے دوزخیوں کو اور دوزخ والے اہل جنت کو پکاریں گے اور اعراف والے بھی پکاریں گے ‘ جیسا کہ اللہ نے سورة اعراف میں بیان فرمایا ہے۔ اور اس وقت لوگوں کو بدبختی اور خوش نصیبی کے ساتھ ندا دی جائے گی اور کہا جائے گا : سنو ! فلاں بن فلاں ایسا خوش نصیب نکلا کہ اس کے بعد کبھی بدنصیب نہ ہوگا۔ سنو ! فلاں بن فلاں ایسا بدبخت ہوا کہ اس کے بعد کبھی خوش بخت نہ ہوگا۔ بزار اور بیہقی نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ابن آدم کو لا کر میزان کے دونوں پلڑوں کے درمیان کھڑا کیا جائے گا اور ایک فرشتہ کو اس پر مامور کردیا جائے گا (اور اعمال کا وزن کیا جائے گا) سو اگر اس کی نیکیوں کا وزن بھاری نکلا تو وہ فرشتہ اتنی بلند آواز سے ندا دے گا جو تمام مخلوق سنے گی : فلاں شخص خوش نصیب ہوگیا ‘ اسکے بعد کبھی بدنصیب نہ ہوگا۔ اور اگر (نیکیوں کا) وزن ہلکا نکلا تو ایک فرشتہ ایسی آواز سے جس کو سب مخلوق سن لے گی ‘ ندا دے گا : فلاں شخص بدبخت نکلا ‘ اس کے بعد کبھی خوش نصیب نہ ہوگا اور اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا : میں نے (تمہارا) ایک رشتہ مقرر کیا تھا اور تم نے (اپنے لئے) دوسرا رشتہ مقرر کیا تھا (یعنی میں نے تقویٰ کو تمہارے لئے پسند کیا تھا اور اس کو تمہارا نسب قرار دیا تھا اور تم نے رشتۂ تولید و قرابت کو اختیار (کیا) ۔ طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کا دن ہوگا تو اللہ ایک منادی کو یہ ندا دینے کا حکم دے گا : سن لو ! میں نے ایک رشتہ مقرر کیا تھا اور تم نے (دوسرا) رشتہ مقرر کیا تھا۔ میں نے سب سے زیادہ معزز اس کو قرار دیا تھا جو تم میں سب سے بڑا پرہیزگار ہو ‘ مگر تم نے اس کو ماننے سے انکار کردیا۔ سنو ! تم نے کہا تھا کہ فلاں بن فلاں ‘ فلاں بن فلاں سے بہتر ہے۔ آج میں اپنے (قائم کردہ) نسب کو اونچا کروں گا اور تمہارے (قائم کردہ) نسب کو نیچے گرا دوں گا۔ کہاں ہیں تقویٰ والے ! اور اس وقت جب کہ موت کو ذبح کردیا گیا ہوگا ‘ ندا دی جائے گی : اے اہل جنت ! (یہاں) ہمیشہ رہنا ہے اور (کبھی) موت نہ ہوگی اور اے دوزخ والو ! (یہاں) ہمیشہ رہنا ہے اور کبھی موت نہیں ہوگی۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب جنت والے جنت کو اور دوزخ والے دوزخ کو چلے جائیں گے تو جنت و دوزخ کے درمیان موت کو لا کر ذبح کردیا جائے گا ‘ پھر ایک منادی ندا دے گا : اے اہل جنت ! آئندہ موت نہیں اور اے دوزخ والو ! آئندہ موت نہیں۔ یہ ندا سن کر اہل جنت کو فرحت بالائے فرحت حاصل ہوگی اور دوزخ والوں پر غم بالائے غم سوار ہوجائے گا۔ حضرت ابو سعید کی روایت سے بھی یہ حدیث اسی طرح آئی ہے اور حاکم و ابن حبان نے بھی حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس کو بیان کیا ہے۔ حضرت ابن عباس اور ضحاک کی قرأت میں یوم التناد کی جگہ یوم التنادّ بتشدید دال (بھاگنے اور منتشر ہونے کا دن) آیا ہے۔ جس طرح اونٹ اپنے مالکوں سے بھاگتے اور بدکتے ہیں ‘ اسی طرح قیامت کے دن لوگ بھاگے بھاگے زمین پر پھریں گے۔ ابن جریر اور ابن مبارک نے ضحاک کا بیان نقل کیا ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ اس نچلے آسمان کو حکم دے گا ‘ وہ پھٹ جائے گا اور اس کے فرشتے اس کے کناروں پر رہیں گے ‘ پھر بحکم الٰہی اتر کر زمین کو اور زمین والوں کو گھیر لیں گے ‘ پھر دوسرے ‘ پھر تیسرے ‘ پھر چوتھے ‘ پھر پانچویں ‘ پھر چھٹے ‘ پھر ساتویں آسمان کی بھی یہی کیفیت ہوگی کہ آسمان پھٹتے جائیں گے اور ہر آسمان کے فرشتے قطار در قطار صف بستہ ہوجائیں گے ‘ پھر ملک اعلیٰ (شاہ عالی جاہ) نزول اجلال فرمائے گا ‘ جہنم کو اس کے بائیں جانب ہوگا (اور جنت دائیں جانب) دوزخ کو دیکھ کر زمین والے منتشر ہو کر بھاگیں گے ‘ لیکن زمین کے جس کنارے پر پہنچیں گے ‘ وہاں ملائکہ کی سات قطاریں (ایک کے پیچھے ایک) موجود پائیں گے۔ مجبوراً جہاں تھے ‘ وہیں لوٹ آئیں گے۔ اسی کا بیان ہے آیات ذیل میں : اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ یَوْمَ التَّنَادِ ‘ یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ مَالَکُمْ مِّنْ اللہ مِنْ عَاصِمٍ ... اور ... وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا وَّجَیْٓیءَ یَوْمَءِذٍم بِجَھَنَّمَ ... اور ... یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ... اور ... وَانْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَھِیَ یَوْمَءِذٍ وَّاھِیَۃٌ وَّالْمَلَکُ عَلآی اَرْجَاءِھَا۔ یہی حالت ہوگی کہ لوگ ایک آواز سنیں گے اور حسان (کے مقام) کی طرف چل پڑیں گے۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے (جس کے مطابق ہم نے ترجمہ نقل کیا ہے) کہ آیت یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ مقام حساب سے دوزخ کی طرف لوٹو گے۔ مَالَکُمْ مِّنْ اللہ مِنْ عَاصِم یعنی اللہ کے عذاب سے تم کو کوئی بچانے والا ہی نہ ہوگا کہ بچا سکے۔ اللہ کے عذاب کو دفع کرنے کی کسی کو قدرت نہیں ہوگی ‘ صرف اللہ کی رحمت ہی عذاب کو دفع کرسکتی ہے اور اللہ کی رحمت تم کو نصیب نہیں ہوگی۔ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہ یعنی اللہ جس کو جنت کا راستہ نہیں بتائے گا ‘ اس کو راہ جنت بتانے والا کوئی نہ ہوگا۔
Top