Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaafir : 33
یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ١ۚ مَا لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ
يَوْمَ تُوَلُّوْنَ : جس دن۔ تم پھر جاؤگے (بھاگوگے) مُدْبِرِيْنَ ۚ : پیٹھ پھیر کر مَا لَكُمْ : نہیں تمہارے لئے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے مِنْ عَاصِمٍ ۚ : کوئی بچانے والا وَمَنْ : اور جس کو يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اسکے لئے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے اور تم کو خدا سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اور جس کو خدا گمراہ کر دے تو اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں بن سکتا۔
قوم کی ضلالت کی تاریخ اور اس کا فلسفہ یہ قوم کی ضلالت کی انہوں نے تاریخ بیان فرمائی ہے کہ اس سے پہلے حضرت یوسف ؑ بھی، نہایت واضح دلائل کے ساتھ، آپ لوگوں کے پاس آئے لیکن ان کی تعلیمات و ہدایات کے باب میں بھی آپ لوگ برابر شک ہی میں رہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بادشاہ وقت کی غیر معمولی عقیدت کے سبب سے۔ جو اس کو حضرت یوسف ؑ کے ساتھ تھی، ان کے معاملے میں کوئی معاندانہ رویہ تو نہیں اختیار کیا گیا لیکن جن باتوں کی انہوں نے تعلیم دی ان کی کوئی خاص قدر بھی نہیں کی گئی۔ بلکہ ان کی تعلیمات کو نفس کی خواہشوں کے خلاف پا کر ان کے باب میں آپ لوگ بےپروائی اور شک میں مبتلا رہے۔ ’ حتی اذا ھلک قلتم من یبعث اللہ من بعدہ رسولا ‘ یعنی ان کو اور ان کی تعلیمات کو اللہ کی رحمت سمجھنے کے بجائے قوم کے لوگوں نے ایک بوجھ خیال کیا۔ یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی تو لوگوں نے ٹھنڈا سانس لیا کہ یہ بوجھ اترا اور مطمئن ہوگئے کہ اب اللہ کوئی اور رسول نہیں بھیجے گا جو ان کی طرح آپ لوگوں کی خواہشوں کو لگام لگانے کی کوشش کرے گا۔ ’ کذلک یضل اللہ من ھو مسرف مرتاب ‘ یعنی آپ لوگوں کی موجودہ گمراہی اسی پچھلی گمراہی کا مولود فساد ہے۔ جو لوگ محض نفس کی خواہشوں کی پیروی میں اللہ کے حدود کو توڑنے والے اور اتباع نفس کے جنون میں علم و یقین کے بجائے شک کی راہ اختیار کرنے والے بن جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو ان کی پسند کردہ ضلالت ہی کی ڈگر پر ہانک دیتا ہے۔ پھر ان کو کبھی ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ جس اصول پر مبنی ہے اس کی طرف اس کتاب میں جگہ جگہ ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو خیر و شر کی جو معرفت اور عقل و فہم کی جو نعمت اس نے بخشی ہے، لوگ اس کی قدر کریں۔ جو لوگ ان کی قدر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے ہدایت و معرفت کی مزید راہیں کھولتا ہے۔ جو اس کی قدر نہیں کرتے بلکہ اپنے نفس کی خواہشوں سے مغلوب ہو کر واضح سے واضح حق کو بھی مشتبہ بنانے کی کوشش کرتے اور اسی مقصد کے لئے اپنی ساری ذہانت صرف کرتے ہیں ان کو مزید ہدایت دینا تو الگ رہا ان کی اس ناقدری کی پاداش میں اللہ تعالیٰ ان کا وہ نور بھی سلب کرلیتا ہے جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہوتا ہے۔ یہاں اس بندہ مومن نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور یہ چیز ان لوگوں کے لئے خاص طور پر قابل توجہ ہے جو اس زمانے میں نہایت واضح حقائق کو مشتبہ بنانے کے لئے رات دن خاکبازی کر رہے ہیں۔
Top