Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 35
وَ زُخْرُفًا١ؕ وَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
وَزُخْرُفًا : اور سونے کے وَاِنْ كُلُّ : اور بیشک سب ذٰلِكَ : سامان ہے لَمَّا : اگرچہ مَتَاعُ : سامان ہے الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی کا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے ہاں لِلْمُتَّقِيْنَ : متقی لوگوں کے لیے ہے
اور یہ چیزیں سونے کی بھی کردیتے اور یہ چیزیں تو بس دنیا کی زندگی کی متاع ہیں اور آخرت تیرے رب کے پاس متقیوں کے لئے ہے
وزخرفاً وان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا، والاخرۃ عند ربک للمتقین (35) ذخرف، کا اعراب زخرف کے معنی زینت کے بھی آتے ہیں اور سونے کے بھی جو زینت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ تالیف کلام کے اعتبار سے اس کو منہ فضۃ کے محل پر عطف بھی کرسکتے ہیں اور فعل بھی محذوف مان سکتے ہیں یعنی لجعلنا لمن یکفربالرحمن زخرفاً مدعا میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوگا۔ یعنی اگر ہم چاہیں تو مذکورہ ساری چیزیں ان کے لئے سونے کی بھی بنا دیں یا ان کے لئے سونے کے ڈھیر اکٹھے کردیں۔ لما کی تحقیق لما یہاں الا کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ اس ل کی جگہ پر ہے جو ان مخففہ اور ان نافیہ کے درمیان بطور علامت فرق کے آیا کرتا ہے۔ بعض جگہ اس ل کو اشارع یعنی کلام کے صوتی خلا کو بھرنے کے لئے لما کردیتے ہیں۔ مثلاً سورة طارق میں ہے ان کل نفس لما علیھا حافظ (4) (بےشک ہر جان پر ایک نگران ہے اصلاً تو یہ (ان کل نفس لعلیھا حافظ ہے لیکن فقرے میں ایک قسم کا صوتی خلا رہ جاتا تھا اس وجہ سے آہنگ کو ٹھیک کرنے کے لئے اہل زبان کے معروف استعمال کے مطابق، اس کو لما کردیا۔ حروف میں اس قسم کے اضافہ کی مثالیں عربی میں بہت ہیں لیکن یہاں ہمارے لئے زیادہ تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں، جن پر یہ لوگ ریجھے ہوئے ہیں، بس اس حیات چند روزہ کی متاع ہیں۔ اصل غیر قانونی نعمتیں تو آخرت میں ملنے والی ہیں اور آخرت تمام تر تیرے رب کے پاس صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو رب سے ڈرنے والے ہیں۔
Top